تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شہر واسط کی آبادی اوپر آپ پڑھ چکے ہیں‘ کہ عبدالرحمان بن محمد کے مقابلہ کی غرض سے حجاج کو عبدالملک کے پاس سے بار بارفوجی امداد طلب کرنی پڑی تھی‘ جب عبدالرحمان بن محمد عراق سے بے دخل ہو کر سجستان کی طرف واپس آیا ہے تو حجاج کے پاس شامی لشکر بہت زیادہ تعداد میں موجود تھا‘ اہل بصرہ و کوفہ کی طرف سے حجاج کو اطمینان نہ تھا‘ کیوں کہ عبدالرحمان بن محمد کے ساتھ شریک ہو کر لڑنے والے اہل کوفہ و اہل بصرہ ہی تھے۔ لہٰذا شامی لشکر کو ایک عرصہ تک کوفہ میں اپنے پاس رکھنا نہایت ضروری تھا۔ اول حجاج نے حکم دیا کہ شامی لوگ کوفیوں کے گھروں میں قیام کریں‘ لیکن چند ہی روز کے بعد شامی لوگوں نے کوفی عورتوں کے ساتھ بدعنوانیاں شروع کر دیں‘ اس کا حال حجاج کو معلوم ہوا‘ تو اس نے شامی لشکر کے لیے ایک الگ چھائونی قائم کرنی ضروری سمجھی‘ چنانچہ اس نے تجربہ کار لوگوں کی ایک جماعت کو مامور کیا کہ وہ چھائونی کے لیے کوئی مناسب مقام تجویز کریں۔ ان لوگوں نے ایک راہب کو دیکھا کہ وہ ایک مقام کو نجاست سے پاک و صاف کر رہا ہے‘ راہب سے جب اس کی وجہ دریافت کی‘ تو اس نے جواب دیا‘ کہ ہم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہے‘ کہ اس مقام پر عبادت کے لیے ایک مسجد بنائی جائے گی جہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے گی‘ لہٰذا میں اس جگہ کو پاک صاف کر رہا ہوں‘ ان لوگوں نے حجاج سے آکر یہ کیفیت بیان کی‘ حجاج نے اس خاص مقام پر ایک مسجد بنا کر اسی کے ارد گرد فوجی چھائونی قائم کر دی‘ اور شامیوں کو وہاں چلے جانے کا حکم دیا‘ یہی شہر واسط کی ابتداء تھی‘ یہ واقعہ ۸۳ھ کا ہے۔ یزید بن مہلب کی معزولی حجاج نے عبدالرحمان بن محمد بن اشعت سے فارغ ہو کر اہل عراق پر نہایت سختی روا رکھی اور چن چن کر ان کے سرداروں کو قتل کرنا شروع کیا‘ عراق یعنی کوفہ و بصرہ کا کوئی بھی نامور گھرانہ ایسا نہ تھا جس میں سے کوئی نہ کوئی شخص حجاج کے حکم سے قتل نہ ہوا ہو اور اس کو ذلت و سختی برداشت کرنی نہ پڑی ہو‘ صرف ایک مہلب کا گھرانہ ایسا تھا جو باوفا رہنے کے سبب محفوظ تھا۔ یزید بن مہلب خراسان کا گورنر اور عبدالملک و حجاج کا فرماں بردار تھا‘ حجاج نے یزید کو کئی مرتبہ اپنے پاس کوفہ میں طلب کیا‘ لیکن ہر مرتبہ خراسان میں ایسی مصروفیتیں یزید کے لیے موجود تھیں‘ کہ اس نے عذر کیا اور کوفہ نہ آسکا‘ حجاج شکی مزاج بھی تھا‘ اس نے یزید بن مہلب کی نسبت بدگمانی کو دل میں جگہ دی‘ اور اس امر کے در پے ہوا کہ اس کو خراسان کی حکومت سے بے دخل کیا جائے‘ چنانچہ اس نے عبدالملک کو یزید کی شکایتیں لکھنی شروع کیں‘ عبدالملک نے ہر مرتبہ حجاج کو لکھا‘ کہ مہلب اور اس کے بیٹے ہمیشہ ہمارے خیر خواہ اور نمک حلال رہے ہیں‘ وہ مستحق رعایت ہیں لیکن حجاج بار بار اور بااصرار شکایتیں لکھتا رہا‘ عبدالملک نے مجبور ہو کر حجاج کو لکھا کہ تم کوچوں کہ اپنی تجویز پر اصرار ہے‘ لہٰذا میں تم کو اجازت دیتا ہوں‘ کہ جس کو مناسب سمجھو خراسان کا حاکم مقرر کر دو۔ حجاج نے اس اندیشے سے کہ کہیں خراسان کا مسئلہ پیچیدگی اختیار نہ کرے اور اس پر دوسرے عامل کا قبضہ نہ ہو سکے اول یہ حکم یزید کے پاس بھیجا‘ کہ تم اپنے بھائی مفضل بن مہلب کو خراسان کا ملک سپرد کر کے میرے پاس آئو‘ یزید ابھی سامان سفر