تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جاتا تھا‘ مگر باقی تمام ممالک اسلامیہ میں بغداد کے عباسی خلیفہ کو سب خلیفہ مانتے اور اپنا مذہبی پیشوا جانتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی ایسا ضرور ہوا ہے کہ خاص بغداد میں کسی ملک نے خلیفہ کا نام خطبہ سے خارج کر دیا اور صرف اپنے نام کا خطبہ پڑھوایا‘ مگر دوسرے ملکوں میں خلیفہ کا نام خطبوں میں ضرور شامل رہا۔ خاندان بویہ کی بغداد میں حکومت خاندان بویہ کا حال اوپر مذکور ہو چکا ہے کہ بویہ کے تینوں بیٹے علی‘ حسن‘ احمد حکومت و سرداری حاصل کر چکے ہیں‘ علی (عماد الدولہ) فارس پر قابض و متصرف تھا‘ حسن (رکن الدولہ) اصفہان و طبرستان کی طرف حکومت و سرداری حاصل رکھتا تھا۔ احمد (معز الدولہ) اہواز پر قابض تھا‘ جب ابن شیرزاد کی امیر الامرائی میں بغداد کے اندر فتنہ و فساد برپا ہو گیا تو معز الدولہ نے جو بغداد سے نسبتاً قریب تھا بغداد پر حملہ کیا۔ شیرزاد بھاگ کر بنو حمدان کے پاس موصل چلا گیا اور معز الدولہ بغداد پر بآسانی قابض و مستولی ہو گیا۔ خلیفہ مستکفی کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اس کو معزالدولہ ملک کا خطاب دیا۔ معز الدولہ نے اپنے نام کے سکے مسکوک کرائے اور بغداد پر پورے قہر و غلبہ کے ساتھ حکومت کرنے لگا‘ چند روز کے بعد معز الدولہ کو معلوم ہوا کہ خلیفہ مستکفی اس کے خلاف کوئی سازش کر رہا ہے‘ انہیں ایام میں والی خراسان کا سفیر آیا اور اس تقریب میں دربار عام منعقد کیا گیا‘ معزالدولہ نے سردربار دو دیلمیوں کو اشارہ کیا‘ وہ آگے بڑھے‘ خلیفہ نے سمجھا کہ دست بوسی کے لیے آگے بڑھے ہیں اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا‘ دیلمیوں نے وہی ہاتھ پکڑ کر خلیفہ کو تخت سے نیچے کھینچ کر ڈال دیا اور گرفتار کر لیا‘ کسی کی مجال نہ تھی کہ اف کر سکے۔ معز الدولہ اسی وقت سوار ہو کر اپنے مکان پر آیا اور دیلمی خلیفہ کو کھینچتے اور بے عزت کرتے ہوئے معز الدولہ کے سامنے لائے‘ اس کی آنکھیں نکال کر قید کر دیا‘ یہ واقعہ ماہ جمادی الآخر ۳۳۴ھ کا ہے‘ خلیفہ مستکفی نے ایک برس چار مہینے برائے نام خلافت کی اور ۳۳۸ھ میں بحالت قید فوت ہوا۔ مطیع اللہ معز الدولہ بن بویہ دیلمی بویہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا‘ یہ لوگ چونکہ اطروش کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے اس لیے تمام دیلمی شیعہ تھے‘ خاندان بویہ شیعیت اور عصبیت میں سب سے بڑھا ہوا تھا‘ مستکفی کو ذلیل و معزول و مقید اور اندھا کر دینے کے بعد معز الدولہ نے چاہا کہ کسی علوی کو تخت خلافت پر بٹھائے مگر اس کے کسی مشیر نے اس کو اس ارادے سے باز رکھا اور سمجھایا کہ اگر آپ نے کسی علوی کو خلیفہ بنا دیا تو چونکہ آپ کی تمام قوم اس کو مستحق خلافت سمجھے گی اس لیے وہ بجائے آپ کے اس علوی خلیفہ کی خدمت و اطاعت کو مقدم سمجھے گی اور دیلمیوں پر جو آپ کا اثر اب ہے یہ ہرگز باقی نہیں رہے گا‘ اور نہ آپ کی یہ حکومت و شوکت بر قرار رہے گی‘ لہٰذا مناسب یہ ہے کہ اسی عباسی خاندان سے کسی شخص کو تخت خلافت پر بٹھائو تاکہ تمام شیعہ اس کو غیر مستحق خلیفہ سمجھ کر آپ کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے مستعدر ہیں‘ اور اس طرح شیعیت بغداد میں قائم رہے۔ چنانچہ معز الدولہ نے ابو القاسم فضل بن مقتدر کو طلب کیا اور مطیع للہ کے لقب سے