تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
و قتال کیا‘ خلیفہ کے لشکر نے نمک حرامی کی اور خلیفہ کا ساتھ چھوڑ دیا‘ خلیفہ نے شکست کھائی اور ہمدان کے ایک قلعہ میں قید کر دیا گیا‘ یہ خبر بغداد میں پہنچی تو اہل بغداد میں ماتم برپا ہو گیا۔ انھیں ایام میں متواتر عراق و خراسان میں زلزلے کئی روز تک آتے رہے‘ سلطان سنجر نے اپنے بھتیجے سلطان مسعود کو لکھا کہ تم خود خلیفہ کے پاس جائو اور معافی مانگو یہ زلزلوں کا آنا اور لوگوں کا مسجدوں میں نمازوں کے لیے نہ آنا کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ امیرالمومنین کو نہ نہایت عزت و حرمت کے ساتھ دارالخلافہ بغداد پہنچائو‘ سلطان مسعود نے سلطان سنجر کے حکم کی تعمیل کی اور خلیفہ کی خدمت میں خود حاضر ہوا۔ جو لشکر سلطان مسعود کے ساتھ تھا اس میں سترہ آدمی قرامطہ یا باطنی فرقہ کے بھی شامل ہو گئے تھے‘ جن کی سلطان مسعود کو خبر نہ تھی‘ ان باطنیوں نے خلیفہ کے خیمے کے قریب پہنچ کر خلیفہ پر حملہ کیا اور قتل کر ڈالا‘ خلیفہ کے اس طرح قتل ہونے کا حال جب یکایک لوگوں کو معلوم ہوا تو باطنیوں کو گرفتار کیا اور وہ سب کے سب قتل کئے گئے‘ سلطان مسعود کو سخت صدمہ ہوا۔ یہ واقعہ ۱۶ ذیقعدہ ۵۲۹ھ بروز پنجشنبہ وقوع پذیر ہوا‘ یہ خبر جب بغداد میں پہنچی تو اور بھی حشر برپا ہو گیا اور شہر میں بڑا کہرام مچا اور خلیفہ مستر شد کا بیٹا ابو جعفر منصور تخت خلافت پر بیٹھا اور اس نے اپنا لقب راشد باللہ مقرر کیا۔ راشد باللہ راشد باللہ بن مستر شد باللہ ۵۰۰ھ میں ایک ام ولد کے بطن سے پیدا ہوا‘ جب وہ پیدا ہوا تو اس کے پاخانہ کی جگہ نہ تھی‘ طبیبوں نے ایک چاندی کے نشتر سے شگاف دے دیا اور وہ اچھا ہو گیا‘ راشد باللہ بغداد میں تخت نشین ہوا ہے تو سلطان مسعود موجود نہ تھا‘ راشد باللہ کے نام کا خطبہ شہروں میں پڑھا گیا‘ راشد باللہ نے تخت نشین ہونے کے بعد لوگوں سے مال و دولت کے لینے میں کسی قدر ظلم و زیادتی سے کام لیا‘ سلطان مسعود کو لوگوں نے شکایات لکھ کر بھیجیں‘ سلطان مسعود بغداد کی طرف روانہ ہوا‘ سلطان مسعود کے بغداد کی طرف آنے کی خبر سن کر راشد باللہ موصل کی طرف چلا گیا‘ سلطان مسعود نے بغداد میں داخل ہو کر ایک محضر تیار کرایا‘ اس میں بہت سے لوگوں کی شہادت قلم بند کی گئی‘ جنھوں نے بیان کیا تھا کہ راشد نے فلاں فلاں اشخاص پر ظلم کیا‘ زبردستی مال چھینا‘ خوں ریزی کی اور شراب بھی پی‘ یہ محضر فقہاء و قضاۃ کی خدمت میں پیش کر کے استفتاء کیا گیا کہ خلیفہ اگر ایسی حرکات کا مرتکب ہو تو نائب السلطنت کو اس کی معزولی کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس پر قاضی شہر نے فتویٰ لکھ دیا کہ نائب السلطنت ایسے خلیفہ کو معزول کر سکتا ہے‘ چنانچہ سلطان مسعود نے راشد باللہ کے چچا محمد بن مستظہر کو تخت خلافت پر بٹھا کر بیعت کر لی اور راشد کی معزولی کا اعلان کر دیا‘ یہ واقعہ ۱۶ ذیقعدہ کا ہے‘ راشد کی خلافت ایک سال رہی‘ محمد بن مستظہر نے تخت خلافت پر بیٹھ کر اپنا لقب مکتفی لامراللہ تجویز کیا۔ راشد کو جب اپنے معزول ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ موصل سے بلاد آذربائیجان کی طرف چلا گیا اور اپنے لشکریوں کو مال و دولت تقسیم کیا‘ آذربائیجان کے شہروں کو لوٹ مار سے برباد کیا‘ وہاں سے ہمدان آیا‘ یہاں بھی خوب فتنہ و فساد برپا کیا‘ لوگوں کو پکڑ کر سولی چڑھایا‘ قتل کیا‘ علماء کی داڑھیاں منڈوائیں‘۱؎ پھر اصفہان پہنچ کر اس کا