تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قسم کا خطرہ بدامنی و بغاوت کا باقی نہیں رہا تو اس نے کہا کہ جب تک بنو امیہ بادشاہ اور خلیفہ رہے۔ ہم کو مطلق بادشاہی اور حکومت سے حصہ حاصل نہ ہوا۔ لیکن ہم کو خلافت حاصل ہوئی تو بنو امیہ کی حکومت و سلطنت پھر بھی اندلس میں قائم ہے‘ لہٰذا اب مجھ کو دیار مغرب کی طرف فوج کشی کر کے اندلس کی حکومت بنو امیہ سے چھین لینی چاہیئے‘ چنانچہ اس نے اپنے خزانہ اور اخراجات جنگ اور خرچ سفر کا اندازہ کرایا اور اندلس پر فوج کشی کی تیاری شروع کی۔ انہیں ایام میں خبر پہنچی کہ ابو حرب یمانی نے جو فلسطین میں سکونت پذیر تھا اور اپنے آپ کو بنو امیہ کے خاندان سے بتاتا تھا اپنے گرد ایک لاکھ آدمی جمع کر لیے ہیں اور علم بغاوت بلند کرنا چاہتا ہے۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ ابو حرب جو فلسطین میں رہتا تھا۔ ایک روز کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ ایک لشکری اس کے مکان میں اترنے اور قیام کرنے پر آمادہ ہوا۔ عورتوں نے اس کو منع کیا‘ لشکری نے عورتوں کو مارا اور زبردستی مکان کے مردانہ حصہ میں قیام کر دیا۔ ابو حرب جب باہر سے آیا اور لشکری کی اس زیادتی کا حال سنا تو لشکری پر حملہ آور ہو کر اسے قتل کر دیا اور خود حکام وقت کے خوف سے بھاگ کر علاقہ اردن کے پہاڑوں میں چلا گیا۔ اپنے چہرہ پر ایک نقاب ڈال لی اور دیہاتیوں میں وعظ و پند کا سلسلہ جاری کیا۔ لوگ اس کے معتقد ہو گئے۔ اس نے اپنے وعظ و نصیحت میں خلیفہ وقت کے معائب بھی بیان کرنے شروع کر دئیے۔ اس طرح ایک لاکھ آدمی اس کے معتقد ہو کر اور اس کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر خلیفہ وقت کے خلاف جنگ کرنے پر مستعد ہو گئے۔ معتصم نے رجاء بن ایوب کو ایک ہزار سوار دے کر اس کی سرکوبی پر مامور کیا۔ لیکن رجاء بن ایوب نے ابو حرب کے ہمراہیوں کی کثرت سے مرعوب ہو کر لڑائی کے چھیڑنے میں تامل کیا اور اس بات کا انتظار کرنا مناسب سمجھا کہ کاشتکاری و زراعت کے کاموں کا زمانہ آ جائے اور ابو حرب کے ہمراہی جو عموماً زراعت پیشہ لوگ ہیں اپنے کھیتوں کی طرف متوجہ ہو کر منتشر ہو جائیں تو پھر حملہ کروں۔ اسی حالت میں ۲۰ ربیع الاول ۲۲۷ھ کو خلیفہ معتصم باللہ نے وفات پائی اور بنو امیہ کے ساتھ زور آزمائی کا ارادہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ خلیفہ معتصم کے بعد اس کا بیٹا واثق باللہ عباسی سریر آرائے خلافت ہوا۔ اور لوگوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی۔ معتصم کے جنازے کی نماز واثق باللہ نے پڑھائی اور سامرا میں اس کو دفن کیا۔ خلافت معتصم کی خصوصیات خلیفہ معتصم چونکہ خود پڑھا لکھا آدمی نہ تھا۔ اس لیے اس کے عہد خلافت میں وہ علمی سرگرمیاں جو ہارون و مامون کے زمانے میں زور شور سے شروع ہو کر ترقی پذیر تھیں‘ مدھم پڑ گئیں۔ معتصم کو فتوحات ملکی اور جنگ و پیکار کا زیادہ شوق تھا۔ اس کے زمانے میں روم بلاد خزر و ماوراء النہر و کابل و سیستان وغیرہ کی طرف خوب فتوحات حاصل ہوئیں۔ قیصر روم پر اس نے ایسی کاری اور زبردست ضرب لگائی کہ اب تک مسلمانوں کی طرف سے ایسی ضرب نہیں لگائی گئی تھی‘ جنگ روم اور فتح عموریہ میں معتصم نے تیس ہزار رومیوں کو قتل اور تیس ہزار کو گرفتار کر کے رومیوں کو بے حد خوف زدہ بنا دیا تھا۔ جتنے بادشاہ معتصم کے دروازے پر جمع ہوئے اس قدر کسی خلیفہ کے دروازے پر جمع نہ ہوئے تھے۔ معتصم کو عمارت بنانے کا بھی شوق تھا۔ ایک ہزار دینار روزانہ اس کے باورچی خانے کا خرچ تھا۔ معتصم کو ترکی غلاموں کے خریدنے اور ان کی جمعیت بڑھانے کا خاص شوق تھا‘ اس