تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میرے ہاں مسلم بن عقیل پناہ گزین ہیں‘ لیکن میں اپنی یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا‘ کہ اب ان کو آپ کے سپرد کر دوں‘ عبیداللہ نے ہانی کو وہیں گرفتار کر لیا‘ شہر میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ہانی کو عبیداللہ نے قتل کر دیا ہے‘ ہانی بن عروہ کے گھر کی عورتیں یہ سن کر رونے لگیں‘ مسلم بن عقیل نے جب یہ صورت دیکھی تو وہ ضبط نہ کر سکے‘ اور فوراً شمشیر بدست ہانی کے گھر سے نکل کر ان لوگوں کو آواز دی جنہوں نے مسلم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی‘ اٹھارہ ہزار میں سے صرف چار ہزار آدمی ان کے گرد جمع ہوئے‘ مسلم نے باقیوں کو بھی بلایا‘ لیکن ہر ایک نے یہ جواب دیا کہ ہم سے تو بیعت کے وقت یہ اقرار لیا گیا ہے‘ کہ جب تک سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نہ آجائیں کسی سے جنگ نہ کریں گے‘ ان کے آنے تک آپ کو بھی صبر کرنا چاہیئے۔ مسلم بن عقیل چوں کہ اب باہر آچکے تھے‘ لہٰذا دوبارہ نہیں چھپ سکتے تھے‘ ان ہی چار ہزار آدمیوں کو لے کر مسلم بن عقیل نے عبیداللہ بن زیاد کا محاصرہ کیا‘ عبیداللہ اس وقت دارالامارۃ میں تیس چالیس آدمیوں کے ساتھ تھا‘ چھتوں پر چڑھ کر محاصرین پر تیروں کی بارش شروع کی‘ مسلم کے ہمرائیوں کو ان کے رشتہ داروں اور دوستوں نے آ آکر سمجھانا شروع کیا کہ اپنے آپ کو کیوں ہلاکت میں ڈالتے ہو‘ غرض رفتہ رفتہ سب جدا ہو گئے‘ اور مسلم بن عقیل کے ساتھ صرف تیس چالیس آدمی رہ گئے۔ مسلم بن عقیل اور ہانی کاقتل اس حالت میں مسلم بن عقیل وہاں سے بھاگے اور اہل کوفہ میں سے کسی شخص کے گھر میں پناہ گزین ہوئے‘ عبیداللہ بن زیاد نے عمرو بن جریر مخزومی کو ان کی گرفتاری کے لیے بھیجا‘ مسلم بن عقیل نے کوئی مفر نہ دیکھ کر تلوار کھینچی‘ لیکن عمرو بن جریرنے کہا کہ ناحق آپ اپنی جان کیوں ضائع کرتے ہو آپ اپنے آپ کو میرے سپرد کر دیں‘ میں اپنی ذمہ داری پر آپ کو امیر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لیے جاتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ اس سے آپ کی جان بخشی کرا دوں گا۔ مسلم بن عقیل نے تلوار ہاتھ سے رکھ کر اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا‘ وہ مسلم کو عبیداللہ کے پاس لے گیا‘ عبیداللہ نے مسلم کو بھی اسی کمرہ میں قید کر دیا جس میں ہانی بن عروہ پہلے سے قید تھے۔ اگلے روز بیعت کرنے والوں میں سے دس ہزار آدمی جمع ہوئے‘ اور عبیداللہ بن زیاد کے مکان کو جا کر گھیر لیا اور مسلم و ہانی دونوں کی رہائی کا مطالبہ کیا کہ اگر دونوں کو رضامندی سے رہا کر دو‘ تو بہت اچھا ہے‘ نہیں تو ہم زبردستی چھین کر لے جائیں گے۔ عبیداللہ بن زیاد نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا کہ چھت پر لے جا کر مسلم اور ہانی دونوں کو ان لوگوں کے سامنے قتل کر دو‘ چنانچہ دونوں کو قتل کر دیا گیا‘ یہ دیکھ کر سب منتشر ہو گئے‘ گویا وہ ان دونوں کو قتل ہی کرانے آئے تھے۔ عبیداللہ نے حکم دیا کہ محل کا دروازہ کھول دیں اور ان دونوں کے جسموں کو دار پر لٹکا دیں‘ اور سروں کو یزید کے پاس دمشق لے جائیں۔ یزید نے عبیداللہ کو لکھا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے روانہ ہو چکے ہیں اور بہت جلد کوفہ پہنچنے والے ہیں تم اچھی طرح اپنی حفاظت کرو‘ اور فوجیں متعین کر دو کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو پہلے ہی راستہ میں روک دیں اور کوفہ تک نہ پہنچنے دیں۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے روانگی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے مکہ سے روانگی کی تیاری کی۔ جب سامان سفر درست ہو