تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیا اور خود قلب میں رہا۔ غرض لشکر اسلام نے آگے بڑھ کر شہر عموریہ کا محاصرہ کر لیا اور مورچے قائم کر کے ساباط اور دبالوں کے ذریعہ فصیل کی طرف بڑھنا شروع کیا‘ ۶ ماہ رمضان ۲۲۳ھ سے آخر شوال ۲۲۳ھ تک یعنی ۵۵ روز عموریہ کا محاصرہ رہا۔ بالآخر مسلمانوں نے عموریہ کو فتح کر کے وہاں کے لوگوں کو گرفتار و قتل کیا۔ مال غنیمت کو معتصم نے پانچ روز تک فروخت کرایا‘ پھر جو باقی بچا سب کو جلا دیا۔ پھر فوج کو حکم دیا کہ عموریہ کو مسمار کر کے زمین کی برابر کر دو‘ چنانچہ فوج نے اس کام کو انجام دے کر عموریہ کو برباد کر دیا۔ قیصر نوفل بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا اور خلیفہ معتصم نے قیدیوں کو اپنے سپہ سالاروں میں تقسیم کر کے طرطوس کی جانب کوچ کیا۔ عباس بن مامون کا قتل عجیف و افشین دونوں سپہ سالاروں میں رقابت تھی۔ خلیفہ معتصم عجیف کے کاموں پر اکثر نکتہ چینی کیا کرتا تھا اور افشین کے مقابلہ میں اس کے بے قدری و بے عزتی ہوتی تھی‘ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عجیف کی وفاداری میں فرق آ گیا اور وہ خلیفہ کے خلاف منصوبے گانٹھنے لگا۔ چنانچہ بلا دروم پر چڑھائی کے وقت اس نے عباس بن مامون سے جو اس سفر میں ساتھ تھا کہا کہ آپ نے بڑی غلطی کی کہ معتصم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اگر آپ خود خلیفہ بننے کی خواہش کرتے تو تمام سردار ان فوج آپ کی حمایت پر آمادہ تھے۔ عباس کو اس تحریک و ترغیب سے کچھ خیال پیدا ہوا‘ اور عجیف نے اسی قسم کے تذکرے بار بار کر کے عباس کو خروج پر آمادہ کر لیا۔ تجویز یہ ہوئی کہ پوشیدہ طور پر اول سردار ان لشکر کو ہم خیال بنایا جائے اور پھر بیک وقت معتصم۔ افشین۔ اور اشناس کو قتل کر کے عباس کی خلافت کا اعلان کر دیا جائے۔ اس تجویز پر کاربند ہو کر اول بہت سے لشکر کو عباس کی خلافت پر آمادہ کر لیا گیا۔ مگر فتح عموریہ کے بعد وہاں سے واپس ہوتے ہوئے راستے میں معتصم کو اس سازش کا حال معلوم ہو گیا۔ معتصم نے اول عباس کو بلا کر قید کر لیا اور افشین کے سپرد کر دیا۔ پھر مشاء بن سہل‘ عمر فرغانی اور عجیف کو بھی یکے بعد دیگرے گرفتار کر کے قید کر لیا۔ اول مشاء بن سہل کو قتل کیا۔ پھر مقام بنج میں پہنچ کر عباس بن مامون کو ایک بورہ میں بھر کرسی دیا۔ اسی حالت میں دم گھٹ کر وہ مر گیا۔ پھر مقام نصیبن میں پہنچ کر ایک گڑھا کھدوایا اور فرغانی کو اس میں زندہ دفن کر دیا۔ پھر موصل میں پہنچ کر عجیف کو بھی ایک بورہ میں بھر کرسی دیا جس سے دم گھٹ کر وہ مر گیا۔ سامرہ میں داخل ہو کر خلیفہ مامون الرشید کی بقیہ اولاد کو گرفتار کرا کر سب کو ایک مکان میں قید کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ سب وہیں مر گئے۔ غرض اس سفر میں خلیفہ معتصم نے چن چن کر ہر ایک اس شخص کو جس پر ذرا بھی بغاوت کا شبہ ہوا قتل کر کے قصہ پاک کیا۔ بغاوت طبرستان مازیار بن قارن رئیس طبرستان‘ عبداللہ بن طاہر گورنر خراسان کا ماتحت اور خراج گزار تھا۔ اس کے اور عبداللہ بن طاہر کے درمیان کسی بات پر ناراضی پیدا ہوئی‘ مازیار نے کہا کہ میں براہ راست خراج دارالخلافہ میں بھیج دیا کروں گا۔ لیکن عبداللہ بن طاہر کو ادانہ کروں گا۔ عبداللہ بن طاہر اس بات کو اپنے وقار گورنری کے خلاف سمجھ کرنا پسند کرتا تھا۔ چند روز تک یہی جھگڑا رہا اور مازیار خراج براہ راست دارالخلافہ میں بھیجتا اور