تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھوڑے آدمی تھے اور حقیقت یہ تھی کہ اس وقت دارالخلافہ میں کوئی جمعیت اور طاقت ایسی موجود نہ تھی کہ ان بلوائیوں کی طاقت کا مقابلہ کرسکتی‘ منصور کے لیے یہ وقت نہایت ہی نازک تھا اور قریب تھا کہ دارالخلافہ اور اس کے ساتھ ہی خلافت اور منصور اپنی جان سے جائیں اور راوندیوں کا قبضہ ہو جائے‘ اس خطرناک حالت سے فائدہ اٹھانے میں معن بن زائدہ نے کوتاہی نہیں کی‘ وہ فوراً منصور کے پاس پہنچ گیا اور جاتے ہی بلوائیوں کو مارنے اور ہٹانے میں مصروف ہو گیا‘ اتنے میں اور لوگ بھی آکر منصور کے گرد جمع ہونے لگے لیکن معن بن زائدہ کے حملے بہت ہی زبردست اور کارگر ثابت ہو رہے تھے اور منصور اپنی آنکھ سے اس اجنبی شخص کی حیرت انگیز بہادری کو دیکھ رہا تھا‘ آخر معن بن زائدہ نے اس لڑائی میں سپہ سالاری کے فرائض خود بخود ادا کرنے شروع کر دیئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ سخت و شدید زور آزمائی کے بعد ان بلوائیوں کو شکست ہوئی‘ شہر کے آدمی بھی سب اٹھ کھڑے ہوئے اور تمام بلوائیوں کو قتل کر کے رکھ دیا۔ اس ہنگامے کے بعد منصور نے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہے جس نے اپنی پامردی و بہادری کے ذریعہ اس فتنہ کو فرو کرنے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے‘ تب اس کو معلوم ہوا کہ یہ معن بن زائدہ ہے‘ منصور نے اس کو امان دے دی اور اس کے سابق جرموں کو معاف کر کے اس کی عزت و مرتبہ کو بڑھا دیا۔ ابودائود خالد بن ابراہیم ذہلی بلخ کا عامل اور آج کل خراسان کا گورنر تھا‘ اسی عرصہ یعنی ۱۴۰ھ میں اس کے لشکر میں بغاوت پھوٹی اور اہل لشکر نے مکان کامحاصرہ کر لیا‘ ابو دائود مکان کی چھت پران باغیوں کے دیکھنے کے لیے چڑھا‘ اتفاق سے پائوں پھسل کر گر پڑا اور اسی دن مر گیا‘ اس کے بعد اس کے سپہ سالار حصام نے اس بغاوت کو فرو کیا اور خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے کر منصور کو اطلاع دی‘ منصور نے عبدالجبار بن عبدالرحمن کو گورنر خراسان بنا کر بھیجا۔ عبدالجبار کی بغاوت اور قتل عبدالجبار نے خراسان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لیتے ہی ابودائود کے عاملوں کو معزول و بے عزت اور قتل کرنا شروع کیا اور بڑے بڑے سرداروں کو ذرا ذرا سے شبہ میں قتل کر کے تمام ملک میں ہلچل مٹا دی‘ یہ خبر منصور کے پاس پہنچی کہ عبدالجبار عباسیوں کے خیر خواہوں کو قتل کئے ڈالتا ہے‘ منصور متامل تھا کہ عبدالجبار کو خراسان سے کس طرح بآسانی جدا کرے کیونکہ اس کو اندیشہ تھا کہ کہیں وہ اعلانیہ باغی نہ ہو جائے ‘ آخر منصور نے عبدالجبار کو لکھا کہ لشکر خراسان کا ایک بڑا حصہ جہاد روم پر روانہ کر دو‘ مدعا یہ تھا کہ جب لشکر خراسان کا بڑا حصہ خراسان سے جدا ہو جائے گا تو پھر عبدالجبار کا معزول کرنا اور کسی دوسرے گورنر کا وہاں بھیج دینا آسان ہو گا۔ عبدالجبار نے جواباً لکھا کہ ترکوں نے فوج کشی شروع کر دی ہے اگر آپ لشکر خراسان کو دوسری طرف منتقل کر دیں گے تو مجھ کو خراسان کے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ جواب دیکھ کر منصور نے عبدالجبار کو لکھا کہ خراسان کا ملک مجھ کو سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس کو محفوظ رکھنا نہایت ضروری سمجھتا ہوں‘ اگر ترکوں نے فوج کشی شروع کر دی ہے تو میں خراسان کی حفاظت کے لیے ایک لشکر عظیم روانہ کرتا ہوں‘ تم کوئی فکر نہ کرو۔ اس تحریر کو پڑھ کر عبدالجبار نے فوراً منصور کو لکھا کہ خراسان کے ملک کی آمدنی