تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۵۸ ھ میں سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فوت ہو کر جنت البقیع میں مدفون ہوئیں‘ آپ مروان کی مخالفت کیا کرتی تھیں‘ کیوں کہ اس کے اعمال اچھے نہ تھے‘ مروان نے ایک روز دھوکے سے دعوت کے بہانے بلا کر ایک گڑھے میں جس میں ننگی تلواریں اور خنجر وغیرہ رکھ دیئے تھے آپ کو گرا دیا‘ آپ بہت ضعیف اور بوڑھی تھیں‘ زخمی ہوئیں‘ اور ان ہی زخموں کے صدمہ سے فوت ہو گئیں۔ وفات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ۵۹ھ میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے وفات پائی‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر فرمایا کرتے تھے‘ الٰہی میں لڑکوں کی حکومت اور ۶۰ھ سے پناہ مانگتا ہوں‘ ان کی یہ دعا قبول ہوئی اور وہ ۶۰ھ سے پہلے ہی فوت ہو گئے۔ وفات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شروع ماہ رجب ۶۰ھ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے‘ اس بیماری میں جب ان کو یقین ہونے لگا کہ اب آخری وقت قریب آگیا ہے تو انہوں نے یزید کو بلوایا۔ یزید اس وقت دمشق سے باہر شکار میں یا کسی مہم پر گیا ہوا تھا‘ فوراً قاصد روانہ ہوا اور یزید کو بلا لایا۔ یزید حاضر ہوا تو انہوں نے اس کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ: ’’اے بیٹے! میری وصیت کو توجہ سے سن اور میرے سوالوں کا جواب دے۔ اب اللہ تعالیٰ کا فرمان یعنی میری موت کا وقت قریب آ چکا ہے‘ تو بتا کہ میرے بعد مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہتا ہے؟‘‘ یزید نے جواب دیا کہ : ’’میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کروں گا۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’سنت صدیقی پر بھی عامل ہونا چاہیے کہ انہوں نے مرتدین سے جنگ کی اور اس حالت میں فوت ہوئے کہ امت ان سے خوش تھی۔‘‘ یزید نے کہا : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا : ’’اے بیٹے! سیرت عمر کی بھی پیروی کر کہ انہوں نے شہروں کو آباد کیا اور فوج کو قوی کیا اور مال غنیمت فوج پر تقسیم کیا۔‘‘ یزید نے جواب دیا کہ : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : ’’اے بیٹے! سیرت عثمان پر بھی عامل ہونا کہ انہوں نے لوگوں کو زندگی میں فائدہ پہنچایا اور سخاوت کی۔‘‘ یزید نے کہا کہ : ’’نہیں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی میرے لیے کافی ہے۔‘‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ : ’’اے بیٹے! تیری ان باتوں سے مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ تو میری باتوں پر عمل درآمد نہ کرے گا۔ میری وصیت اور نصیحت کے خلاف ہی کرے گا۔‘‘۱؎ اے یزید تو اس بات پر مغرور نہ ہونا کہ میں نے تجھ کو اپنا ولی عہد بنا دیا ہے اور تمام