تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مالک و مہتمم تھا۔ حتیٰ کہ ضرورت کے وقت ہارون الرشید کو جعفر ہی سے روپیہ مانگنا پڑتا تھا۔ یحییٰ بن خالد کے اور بھی کئی بیٹے تھے جو بڑی بڑی فوجوں کے افسر تھے۔ اپنے ان اختیارات اور اقتدار سے یحییٰ اور اس کے بیٹوں نے نہایت خوبی کے ساتھ فائدہ اٹھایا یعنی انھوں نے بڑی بڑی جاگیروں اور وظیفوں کی آمدنی کے علاوہ خزانہ سلطنت کے روپیہ کو بھی سخاوت اور داد و دہش میں بے دریغ خرچ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی سخاوت حاتم کی طرح مشہور ہو گئی۔ کوئی شخص ایسا نہ تھا جو خاندان برمک کا مداح اور ہوا خواہ نہ ہو‘ انھوں نے خوب روپیہ حاصل کیا اور اس کو بلا دریغ خرچ کر کے اپنی قبولیت و ناموری خریدی۔ یہاں تک کہ صرف خراسان و عراق ہی میں نہیں‘ بلکہ شام و مصر و عرب و یمن اور دور دور کے ملکوں میں لوگ ان کی مدح سرائی کرتے اور ان کی سخاوت اور بذل مال کی تعریف میں قصائد لکھتے تھے۔ خاندان برمک کی عزت‘ قبولیت‘ اختیار‘ اقتدار‘ قوت و طاقت‘ مال و دولت معراج کمال کو پہنچ چکی تھی۔ بجز اس کے کہ وہ تخت خلافت پر نہیں بیٹھے تھے باقی اور تمام چیزیں ان کو حاصل تھیں۔ وہ ان کے باوجود ہارون الرشید کی منشاء کے خلاف کوئی حرکت نہیں کرتے تھے۔ اس لیے ہارون الرشید کے کسی ہوا خواہ کو یہ موقعہ ہی حاصل نہ تھا کہ ان کے اس اقتدار و عظمت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھے۔ لیکن اگر اس اقتدار و قوت اور اس اختیار و تسلط کی تہ میں کوئی بد نیتی یا بغاوت پوشیدہ ہو تو پھر ہارون الرشید کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی دوسرا دشمن نہیں ہو سکتا تھا۔ ۱۸۷ھ کی ابتداء میں یکایک دیکھا گیا کہ ہارون الرشید نے خاندان برمک کے ساتھ وہ برتائو کیا جو دشمنوں سے کیا جاتا ہے۔ پس ہم کو اس وقت یہ دیکھنا اور تحقیق کرنی چاہیئے کہ آیا برامکہ نے حقیقتاً ہارون الرشید کی سلطنت کے خلاف کوئی منصوبہ اور سازش شروع کر رکھی تھی یا نہیں‘ اور ہارون ان کے اس مخالف منصوبے سے واقف ہو گیا تھا یا نہیں۔ اگر واقعی برامکہ ہارون اور عباسی خلافت کے خلاف کچھ کرنا چاہتے تھے تو ہارون نے ان کے ساتھ جو آخری سلوک کیا وہ سراسر جائز اور ہر طرح مناسب تھا۔ لیکن اگر برامکہ کا ظاہر اور باطن یکساں تھا اور وہ خلوص کے ساتھ ہارون کے فرماں بردار تھے تو ہارون سے بڑھ کر کوئی نا قدر شناس اور ظالم نہیں ہو سکتا۔ سطحی نگاہ والوں کے لیے برامکہ کی بربادی کا مسئلہ ایک عقیدئہ لاینحل خیال کہا جاتا ہے۔ اور انھوں نے چانڈو خانے۱؎ کی بے سروپا باتوں کو اس عقدئہ دشوار کے حل کرنے کے لیے ذریعہ بنا کر حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے۔ نادر شاہ ہندوستان میں ہندوستان میں جب نادر شاہ ایرانی آیا اور صلح و آشتی کے ساتھ ہندوستان کا بادشاہ اس کو مہمان عزیز کی حیثیت سے دہلی میں لایا تو کسی چانڈو خانے میں کسی شخص نے نشہ کی حالت میں کہا کہ ’’واہ محمد شاہ کیا کام کیا ہے کہ قزلباش کو قلعہ میں لا کر قلماقینوں کے ہاتھ سے قتل کرا دیا۔‘‘ یہ بے پرکا کوا اڑا اور اس نے اڑتے ہی تمام دہلی میں ایرانیوں کے سر اڑوانے شروع کرا دئیے۔ آخر مجبور ہو کر نادر شاہ ایرانی نے قتل عام کا حکم دیا اور دہلی میں وہ قتل عام ہوا جس کی نظیر آج تک دہلی نے نہیں دیکھی۔ بس بالکل اسی قسم کی یہ بات ہے کہ کسی نے جعفر برمکی کے قتل کا سبب اس طرح تصنیف کر کے بیان کیا کہ:۔ ’’ہارون الرشید عباسی کی بہن اور مہدی کی ایک بیٹی عباسہ تھی۔ ہارون کو اپنی اس بہن