تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بصرہ‘ شام‘ حجاز‘ یمامہ‘ بحرین‘ موصل وغیرہ صوبوں سے بہت جلد امداد حاصل کر کے مضبوط ہو جائے گی۔ یہ سوچ کر جلال الدولہ کے پاس خطوط روانہ کیے گئے اور اس کو بلا تامل بغداد کی طرف آنے کی دعوت دی گئی۔ چنانچہ جلال الدولہ وارد بغداد ہوا اور حکومت کرنے لگا اس کا نام خطبوں میں داخل ہوا۔ ۴۱۸ھ میں جلال الدولہ نے حکم دیا کہ نماز پنج وقتہ میں نقارہ بجایا جائے‘ خلیفہ قادر باللہ نے اس کو بدعت ہونے کی وجہ سے سخت ناپسند کیا اور اس حکم کے واپس لینے کی تاکید جلال الدولہ کو کی۔ جلال الدولہ نے اپنا یہ حکم منسوخ تو کر دیا مگر خلیفہ سے بہت کبیدہ خاطر ہو گیا‘ چند روز کے بعد پھر خلیفہ نے اجازت دے دی اور جلال الدولہ نے نقارہ بجانے کا حکم جاری کر دیا۔ ۴۱۹ھ میں ترکوں میں نے جلال الدولہ کے خلاف بغاوت کی مگر خلیفہ قادر باللہ نے درمیان میں پڑ کر مصالحت کرا دی‘ اس کے بعد ابو کالیجار نے عراق پر حملہ کیا‘ جلال الدولہ نے اس کے مقابلہ پر فوجیں روانہ کیں‘ اس طرح لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا‘ دونوں ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ ابھی سلسلہ جنگ ختم نہ ہونے پایا تھا کہ خلیفہ قادر باللہ نے ۴۲۲ھ میں انتقال کیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو جعفر عبداللہ قائم بامر اللہ کے لقب سے تخت خلافت پر بیٹھا‘ شیخ تقی الدین صلاح نے قادر باللہ کو فقہائے شافعیہ میں شمار کیا ہے۔ قائم بامر اللہ ابو جعفر عبداللہ قائم بامر اللہ بن قادر باللہ ۱۵ ذیقعدہ ۳۹۱ھ میں ایک ارمنی ام ولد موسومہ بدرالدجیٰ کے بطن سے پیدا ہوا تھا‘ خوب صورت‘ عابد‘ زاہد‘ ادیب‘ خوش خط‘ سخی‘ صدقہ دینے والا‘ احسان کرنے والا شخص تھا‘ جلال الدولہ کے قوائے حکمرانی خود کمزور ہو گئے تھے‘ اس کی فوج میں آئے دن بغاوت برپا رہتی تھی‘ ۴۲۵ھ میں جلال الدولہ نے خود بغداد کے محلہ کرخ میں اقامت اختیار کی اور ارسلان ترکی المعروف بہ بساسیری کو بغداد کے حصہ غربی پر مامور کیا‘ بساسیری نے غلبہ و تسلط حاصل کر کے اہل بغداد کو بہت ستایا اور خلیفہ کو بھی تنگ رکھا اور انواع و اقسام کی گستاخیاں کر کے خلیفہ کو بالکل بے دست وپا اور مثل قیدی کے بنا دیا۔ شیعہ سنیوں میں فسادات برپا ہوئے‘ بساسیری بھی چونکہ شیعوں کا حامی تھا اس لیے سنیوں کو بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے ۴۲۷ھ میں فوج نے بغاوت کی اور جلال الدولہ کے مکان کا محاصرہ کر کے لوٹ لیا‘ جلال الدولہ تکریت چلا گیا‘ خلیفہ قائم بامر اللہ نے بیچ میں پڑ کر فوج کے ترکوں اور جلال الدولہ میں مصالحت کرا دی‘ ۴۲۸ھ میں جلال الدولہ اور اس کے بھتیجے ابو کالیجار میں مصالحت ہو گئی اور ایک دوسرے نے اتحاد و اتفاق کے قائم رکھنے کی قسمیں کھائیں۔ ۴۲۶ھ میں جلال الدولہ نے خلیفہ قائم بامر اللہ سے درخواست کی کہ مجھ کو ’’ملک الملوک‘‘ کا خطاب دیا جائے‘ خلیفہ نے علماء و فقہاء سے اس خطاب کے جواز کی نسبت استفتاء کیا‘ بعض نے جواز کا فتویٰ دیا‘ بعض نے اس کو ناجائز بتایا‘ آخر خلیفہ نے جلال الدولہ سے مجبور ہو کر مجوزین کی رائے پر عمل کیا اور جلال الدولہ کو ’’ملک الملوک‘‘ کا خطاب دے دیا۔ ۴۳۱ھ میں ابو کالیجار نے بصرہ پر فوج کشی کر کے وہاں کے عامل کو بے دخل کر کے قبضہ کر لیا اور اپنے بیٹے عزالملوک کو بصرہ کی حکومت سپرد کر کے خود اہواز