تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محاصرہ کیا‘ اسی اثناء میں بیمار پڑا اور ۱۶ رمضان ۵۳۲ھ کو بعض عجمیوں نے آ کر چھریوں سے اسے قتل کر ڈالا۔ بغداد میں راشد کے قتل ہونے کی خبر پہنچی تو اس کے ماتم میں ایک دن کے لیے دفاتر بند کئے گئے‘ چادر اور عصا مرتے وقت راشد کے پاس تھے اس کے قتل ہونے پر یہ دونوں چیزیں مقتفی کے پاس بغداد پہنچائی گئی تھیں۔ مقتفی لامر اللہ ابو عبداللہ محمد مقتفی لامراللہ بن مستظہر باللہ ۱۲ ربیع الاول ۴۷۹ھ کو ایک حبشیہ ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا‘ اور ۱۲ ذی الحجہ ۵۳۰ھ کو تخت نشین خلافت ہوا‘ اس کے بعد سلطان مسعود نے سلطان دائود کی سرکوبی و تعاقب کے لیے فوج روانہ کی‘ دائود نے مقام مراغہ میں شکست کھائی اور خوزستان پہنچ کر فوجیں جمع کیں اور تشتر کا محاصرہ کر لیا۔ سلجوق شاہ جو ان دنوں واسط کا حکمران تھا‘ سلطان مسعود کے حکم سے تشتر کو بچانے کے لیے روانہ ہوا مگر دائود سے شکست کھا کر واپس آیا‘ سلطان مسعود نے اس خیال سے بغداد کو نہ چھوڑا کہ کہیں راشد بغداد پر نہ چڑھ آئے‘ مسعود نے عمادالدین زنگی والی موصل کو لکھا کہ مقتفی کے نام کا خطبہ پڑھا جائے‘ عمادالدین نے جب مقتفی کے نام کا خطبہ پڑھا اور راشد کا نام خطبہ سے خارج کر دیا تو راشد ۱؎ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق داڑھی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہاں خلیفہ نے جبراً علماء کی داڑھیاں مونڈوائیں۔ اسی سے اس دور کے خلفاء کی دینی حالت کا کافی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ناراض ہو کر موصل سے رجب ۵۳۱ھ میں چل دیا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے‘ فارس میں بعض سرداروں نے راشد کی حمایت کا قصد کر کے راشد کے پاس جانے کا قصد کیا‘ سلطان مسعود نے یہ سن کر بغداد سے کوچ کیا اور ان لوگوں کو شعبان ۵۳۲ھ میں شکست دے کر پریشان و آوارہ کر دیا اور وہاں سے آذربائیجان کا قصد کیا۔ ادھر دائود و خوارزم شاہ اور راشد نے مل کر عراق کا قصد کیا‘ سلطان مسعود نے ان کو شکست دی‘ خوارزم شاہ اور دائود دونوں راشد سے جدا ہو گئے‘ راشد نے اصفہان کا محاصرہ کیا‘ اسی اثناء میں راشد کو چند خراسانی غلاموں نے قتل کر دیا‘ راشد اصفہان کے باہر مقام شہرستان میں مدفون ہوا۔ ادھر سلجوق شاہ نے واسط سے آ کر بغداد پر قبضہ کیا‘ بڑی بد امنی پیدا ہوئی‘ اہل بغداد نے سلجوق شاہ کو شکست دے کر بغداد سے نکال دیا۔ ملک میں ہر طرف طائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اور بد امنی یہاں تک ترقی کر گئی تھی کہ ۵۳۲ھ میں بغداد سے غلاف کعبہ بھی نہیں بھیجا گیا‘ راستوں کا امن و امان بالکل جاتا رہا۔ ۵۳۳ھ میں سلطان مسعود نے بغداد میں آ کر بہت سے ٹیکس جو اہل شہر سے وصول کئے جاتے تھے معاف کر دئیے‘ چند سال اسی حالت میں گذرے‘ خاندان سلجوق کے متعدد افراد کے علاوہ دوسرے سرداروں نے بھی اپنی اپنی خود مختاری کی تدبیریں سوچنی شروع کیں۔ سلطان مسعود نے اپنے خاص سرداروں کو جن سے وہ صاف نہ تھا اور جن پر قابو پا