تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
مروان کے سواروں کا مقابلہ ہو گیا۔ مروان کے سوار پہلے ہی سے افسردہ خاطر اور بد دل تھے انہوں نے مقابلہ نہ کیا اور بھاگ پڑے‘ ان بھاگنے والوں میں چند گرفتار بھی ہو گئے‘ ان گرفتار شدہ سواروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے مروان بن محمد کے قیام کا پتہ بتلا دیا کہ وہ قصبہ بوصیر میں مقیم ہے‘ صالح کی فوج کے افسر ابوعون نے یہ سن کر رات ہی میں مروان کی جائے قیام پر شب خون مارنا مناسب سمجھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مروان کا مقابلہ آسان نہیں ہے‘ چنانچہ شب خون مارا گیا اس اچانک حملہ سے گھبرا کر مروان اپنے مکان سے باہر نکل آیا‘ ایک شخص نے جو پہلے ہی اس تاک میں کھڑا تھا برچھے کا وار کیا‘ مروان گرا اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ افسوس امیرالمومنین مارے گئے‘ اس آواز کو سن کر ابوعون اور اس کے ہمراہی دوڑ پڑے فوراً مروان کا سرکاٹ لیا اور ابوالعباس عبداللہ سفاح کے پاس روانہ کر دیا۔ یہ واقعہ ۲۸ھ ذی الحجہ ۱۳۲ھ مطابق ۵ اگست ۷۵۰ء کو وقوع پزیر ہوا اور اس کے ساتھ خلافت بنوامیہ کا خاتمہ ہو کر خلافت بنو عباس کی ابتدا ہوئی‘ قتل مروان کے بعد اس کے لڑکے عبداللہ و عبیداللہ سر زمین حبشہ کی طرف بھاگے‘ حبشیوں نے بھی ان کو امان نہ دی‘ عبیداللہ حبشیوں کے ہاتھ سے مارا گیا اور عبداللہ فلسطین میں آکر پوشیدہ طور پر رہنے لگا‘ جس کو خلافت مہدی کے زمانے میں عامل فلسطین نے گرفتار کر کے مہدی کے دربار میں بھیج دیا اور اس نے اس کو قید کر دیا۔ مروان بن محمد کا عہد خلافت مروان بن محمد بنوامیہ کا آخری خلیفہ ہے‘ اس لیے عام طور پر خلافت بنو امیہ کی بربادی و تباہی کا ذمہ دار اسی کو سمجھا جاتا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ بنوامیہ کی بربادی کے سامان اس کی خلافت سے پہلے ہی اس کے پیش روئوں کی غفلت سے مرتب و مہیا ہو چکے تھے‘ مروان کی خلافت کا زمانہ کچھ عرصہ کم ۶ سال ہے‘ اس مدت میں مروان کو ایک روز بھی چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ اس نے اپنا تمام عہد خلافت گھوڑے کی پشت پر ہی بسر کیا‘ اس کی جفاکشی و بہادری اور اس کے عزم و استقلال کا صحیح اندازہ اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ اس کے ہاتھ میں ایک ایسی سلطنت دی گئی تھی‘ جو ناقابل علاج امراض میں مبتلا تھی‘ مروان اگر چند روز پہلے تخت خلافت پر بیٹھتا تو یقینا وہ دولت امویہ کی بربادی کو ایک طویل زمانہ کے لیے پیچھے ڈال دیتا‘ مگر موجودہ خرابیوں اور بنو عباس کی سازشوں پر غالب نہ آ سکا‘ مروان کوئی ایسا غیر معمولی عالی دماغ اور عقلمند بھی نہ تھا کہ کسی قریب المرگ سلطنت میں ازسر نو جان ڈال سکتا‘ اس کا تمام زمانہ جھگڑوں اور لڑائیوں ہی میں گزر گیا‘ اس کے عہد خلافت میں عالم اسلام کے اندر ہر طرف تلواریں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں‘ کسی کو اطمینان حاصل نہ تھا‘ کفار پر جہاد کرنے کا تو موقع ہی میسر نہ تھا‘ اس زمانہ میں مسلمانوں کا خون مسلمانوں کے ہاتھوں سے جس قدر بہایا گیا اس کی نظیر بہت ہی کم کسی زمانے میں مل سکتی ہے۔ مروان ۷۰ھ یا ۷۲ھ میں جب کہ اس کا باپ محمد بن مروان جزیرہ کا گورنر تھا پیدا ہوا تھا‘ مروان کی ماں کردستان کی ایک پرستار تھی جو ابراہیم اشتر کے پاس تھی‘ ابراہیم اشتر کے قتل کے بعد محمد بن مروان نے اس کو لے لیا اسی کے پیٹ سے مروان پیدا ہوا تھا۔