تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یزید کی نامزدگی و ولی عہدی کو ۱؎ انہوں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کیمطابق ایسا کہا تھا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا : ’’امیر کی بات سنو اور مانو خواہ تم پر چھوٹے سر والا غلام امیر بنایا جائے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ کتاب الاحکام‘ حدیث ۷۱۴۲) حقیقتاً عالم اسلام کے لیے زیادہ مفید اور مسلمانوں کی فلاح و صلاح کا موجب یقین کرتے ہوں اور اس کے مضر پہلو قطعاً ان کی نگاہ کے سامنے نہ آئے ہوں۔ ابو موسیٰ اشعری کی وفات حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر وہ واپس دمشق میں آئے تو خبر سنی کہ کوفہ میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری فوت ہو گئے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کو بصرہ و کوفہ کا حاکم تو پہلے ہی بنا دیا تھا اور سجستان تک کا علاقہ ان کے ماتحت تھا‘ اب انہوں نے مناسب سمجھا کہ سندھ و کابل و بلخ و جیحون و ترکستان تک کے تمام مشرقی ممالک زیاد کے ماتحت کر دیئے جائیں‘ چنانچہ زیاد کا مرتبہ اب اس قدر بلند ہو گیا کہ وہ خود فارس و خراسان وغیرہ صوبوں کے گورنر اپنے اختیار سے مقرر کرتے اور جس کو چاہتے معزول کر دیتے۔ زیاد نے ان تمام مشرقی ممالک کا انتظام بڑی قابلیت اور خوبی کے ساتھ قائم رکھا اور خوارج کو بھی سر ابھارنے کا موقع نہیں دیا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو زیاد کی وجہ سے بڑی امداد ملی اور ایسے لائق اور قابل شخص کا ہاتھ آجانا ان کی خوش قسمتی تھی۔ اگر زیاد ان مشرقی ممالک میں امن و امان قائم نہ رکھ سکتے تو خوارج کے خروج اور منافقوں کے فتنے برپا ہو کر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اتنا ہوش ہی نہ لینے دیتے کہ وہ یزید کی بیعت کے اہتمام و انصرام میں مصروف ہو سکتے‘ ادھر مشرقی ممالک کے ہنگامہ کا مغربی ممالک پر بھی بہت بڑا اثر پڑتا اور قیصری حملوں سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اطمینان و سکون حاصل نہ ہوتا۔ مصر اور افریقہ وغیرہ کا حاکم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسلمہ بن مخلد کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کے بعد مقرر فرمایا تھا۔ عقبہ بن نافع فہری جو طرابلس الغرب اور الجیریا و مراکو کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور جن کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خود اس مہم پر نامزد و مامور فرما کر روانہ کیا تھا‘ ابن مسلمہ بن مخلد گورنر مصر کے ماتحت کر دیے گئے تھے۔ مدینہ میں مروان بن حکم اور مکہ میں سعید بن العاص رضی اللہ عنہ حاکم تھے۔ شام و فلسطین براہ راست امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر انتظام تھے۔ ادھر عقبہ بن نافع فہری نے شمالی افریقہ کی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر ایک جنگل کو صاف کر کے شہر قیروان کی آبادی کا سنگ بنیاد رکھا۔ افریقہ کے لیے قیروان کی فوجی چھائونی ایسی ضروری تھی جیسی عراق کے لیے بصرہ و کوفہ۔ سنہ ۵۵ھ میں قیروان کی آبادی پایہ تکمیل کو پہنچی تھی کہ مسلمہ بن مخلد نے عقبہ بن نافع کو معزول کر کے ان کی جگہ اپنے ایک غلام ابوالمہاجر کو سپہ سالار مقرر کر دیا۔ عقبہ بن نافع دمشق میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلے آئے۔ مروان‘ سعید اور عقبہ وغیرہ کئی صاحب الرائے اور صاحب عزم و ہمت سرداروں کے دمشق میں موجود ہو جانے اور زیادہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنھما کے اکثر بلاد اسلامیہ پر مستولی ہو جانے کے بعد سنہ ۵۶ھ میں یزید کی ولی عہدی کے لیے تمام عالم اسلام میں عالموں کی معرفت بیعت عام لی گئی۔ صرف تین چار شخص یعنی عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ