تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر سندھ کا قصد کیا کیونکہ عمر بن حفص حاکم سندھ سے اعانت و ہمدردی کی توقع تھی۔ عبداللہ اشتر نے سندھ میں پہنچ کر عمر بن حفص کو دعوت دی اور اس نے اس دعوت کو قبول کر کے محمد مہدی کی خلافت کو تسلیم کر لیا اور عباسیوں کے لباس اور نشانات کو چاک کر کے خطبہ میں محمد مہدی کا نام داخل کر دیا۔ اسی عرصہ میں عمر بن حفص کے پاس محمد مہدی کے مارے جانے کی خبر پہنچی۔ اس نے عبداللہ اشتر کو اس حادثہ سے اطلاع کے کر تعزیت کی۔ عبداللہ اشتر نے کہا کہ اب تو مجھ کو اپنی جان کا خطرہ ہے۔ میں کہاں جائوں اور کیا کروں؟ سندھ کی حالت اس زمانہ میں یہ تھی کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے راجہ جو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے زمانے میں مسلمان ہو گئے تھے‘ وہ اپنی اپنی ریاستوں پر فرماں روائی کرتے تھے اور خلیفہ وقت کی سیادت کو تسلیم کر کے تمام اسلامی شعائر کے پابند اور اپنے حقوق حکمرانی پر قائم تھے۔ عمر بن حفص نے عبداللہ اشتر کو مشورہ دیا کہ تم سندھ کے فلاں بادشاہ کی مملکت میں چلے جائو۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے نام پر قربان ہوتا ہے اور ایفائے عہد میں مشہور ہے۔ یقین ہے کہ تمہارے ساتھ بڑی عزت و محبت سے پیش آئے گا۔ عبداللہ اشتر نے رضا مندی ظاہر کی اور عمر بن حفص نے اس بادشاہ سے خط و خطابت کر کے عبداللہ اشتر کی نسبت عہد نامہ لکھوا کر منگوا لیا اور عبداللہ کو اس طرف روانہ کر دیا۔ سندھ کے اس بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی عبداللہ اشتر سے کر دی۔ سنہ ۱۵۱ھ تک عبداللہ اشتر اسی جگہ رہا اور اس عرصہ میں قریباً چار سو عرب اطراف و جوانب سے کھنچ کھنچ کر عبداللہ اشتر کے پاس آ کر جمع ہو گئے۔ منصور کو اتفاقاً یہ حال معلوم ہو گیا کہ عبداللہ اشتر سندھ کے ایک بادشاہ کے یہاں مقیم ہے اور عربوں کی ایک چھوٹی سی جمعیت اس کے پاس موجود ہے۔ منصور نے سنہ ۱۵۱ھ میں عمر بن حفص کو سندھ کی گورنری سے بلا کر مصر کی حکومت پر بھیج دیا اور سندھ کی گورنری پر ہشام بن عمرو تغلبی کو روانہ کیا۔ رخصت کرتے وقت تاکید کی کہ عبداللہ اشتر کو جس طرح ممکن ہو‘ گرفتار کر لینا۔ اگر سندھ کا بادشاہ اس کے دینے سے انکار کرے تو فوراً اس پر چڑھائی کر دینا۔ ہشام بن عمرو نے ہر چند کوشش کی مگر سندھ کا وہ بادشاہ عبداللہ اشتر کے دینے پر رضا مند نہ ہوا۔ آخر طرفین سے لڑائی پر آمادگی ظاہر کی گئی۔ عبداللہ اشتر جس حصہ ملک میں مقیم تھا‘ اس طرف ہشام بن عمرو کے بھائی سفیح نے فوج کشی کی۔ اتفاقاً ایک روز عبداللہ اشتر صرف دس سواروں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے سیر کرتا ہوا نکل گیا۔ وہاں سفیح کی فوج یکایک سامنے آ گئی۔ سفیح نے عبداللہ کو گرفتار کرنا چاہا اور عبداللہ اشتر اور اس کے ہمراہیوں نے مقابلہ کیا‘ لڑائی ہونے لگی۔ آخر عبداللہ اشتر اور اس کے ہمراہی سب کے سب مارے گئے۔ ہشام بن عمرو نے اس کی اطلاع منصور کو دی۔ منصور نے لکھا کہ اس بادشاہ کے ملک کو ضرور پامال کر دیا جائے۔ چنانچہ لڑائیوں کا سلسلہ جاری ہوا۔ ہشام نے اس کے تمام ملک پر قبضہ کر لیا۔ عبداللہ اشتر کی بیوی مع اپنے لڑکے کے گرفتار ہو کر منصور کے پاس بھیجی گئی۔ منصور نے عبداللہ اشتر کے لڑکے اور بیوی کو مدینہ بھیج دیا کہ ان کے خاندان والوں کے سپرد کر دیے جائیں۔ مہدی بن منصور کی ولی عہدی عبداللہ سفاح نے مرتے وقت منصور کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا اور منصور کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ کو ولی عہد بنایا تھا۔ اب اس وصیت کے موافق منصور کے بعد عیسیٰ بن موسیٰ خلیفہ ہونے والا تھا۔ منصور جب محمد مہدی اور ابراہیم کے خطرات سے مطمئن ہو