تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ ہوتے ہی سب سے پہلے خوارج کا مقابلہ کرنا پڑا‘ جب ربیع الاول ۴۱ ھجری کے آخری عشرہ میں صلح نامہ تحریر ہوا‘ اور کوفہ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی‘ تو فروہ بن نوفل اشجعی خارجی پانچ سو خارجیوں کی جمعیت لے کر علانیہ مخالفت پر آمادہ اور کوفہ سے نکل کر مقام نخیلہ میں جا کر خیمہ زن ہوا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے ساتھ زیادہ سختی و تشدد نامناسب سمجھ کر تدبیر سے کام لیا‘ اہل کوفہ کو جمع کر کے نصیحت کی ‘ اور کہا کہ یہ لوگ تمہارے ہی بھائی بند ہیں تم ہی ان کو سمجھائو‘ اور جنگ و مخالفت کے بدنتائج سے آگاہ کرو‘ قبیلہ اشجع کے لوگوں پر یہ اثر ہوا کہ وہ گئے اور فروہ بن نوفل اشجعی کو پکڑ کر باندھ لائے۔ فروہ کے بعد خارجیوں نے عبداللہ بن ابی الحوساء کو اپنا سردار بنا لیا‘ اور صلح کی طرف قطعاً اپنا میلان ظاہر نہ کیا‘ آخر کوفیوں نے ان کا مقابلہ کیا اور عبداللہ لڑائی میں مارا گیا۔ اس کے بعد ان کی تعداد صرف ڈیڑھ سو رہ گئی ‘ اور حوثرہ اسدی کو انہوں نے اپنا سردار بنا لیا‘ ان بقیہ لوگوں کو بھی مصالحت کی دعوت دی گئی‘ لیکن انہوں نے لڑ کر مر جانا پسند کیا اور مصالحت کی طرف متوجہ نہ ہوئے‘ آخر ابو حوثرہ اور اس کے ہمراہی لڑ کر مارے گئے‘ اور کچھ لوگ عراق و ایران کے مختلف شہروں میں چلے گئے۔ یہ پہلا مقابلہ تھا جو امیر معاویہ کو خلیفہ مقرر ہوتے ہی کوفہ میں پیش آیا اور ساتھ ہی خارجیوں کی اسی قسم کی جمعیت کا حال معلوم ہوا کہ ہر شہر میں موجود اور تمام عراق میں پائی جاتی ہیں۔ عمال کا تقرر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مصر کی حکومت تو پہلے ہی سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو دے دی تھی‘ اب تمام عالم اسلام کے خلیفہ ہونے پر سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو مکہ کا اور مروان بن حکم کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا‘ سعید اور مروان دونوں ان کے رشتہ دار تھے‘ اس لیے مکہ و مدینہ میں انہوں نے ان دونوں کو مقرر و مامور فرمایا تاکہ عالم اسلامی کے ان دونوں مرکزی شہروں میں ان کے خلاف کوئی گروہ پیدا نہ ہو اور کوئی سازش کامیاب نہ ہو سکے‘ وہ ہر سال حج کے لیے خود نہیں جاتے تھے‘ اس لیے ان ہی دونوں میں سے کوئی ایک امیر حج بھی ہوتا تھا‘ ان کو اس بات کا بھی خیال تھا کہ مکہ و مدینہ کی مرکزیت سے فائدہ اٹھا کر ان دونوں میں سے کوئی ایک اگر چاہے‘ تو ان کے خلاف طاقت و اثر پیدا کر سکتاہے لٰہذا وہ ان دونوں کو ہر سال ایک دوسرے کی جگہ تبدیل کرتے رہتے تھے۔ کوفہ میں بیعت خلافت لینے کے بعد ہی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر فرمایا اور سمجھایا کہ خوارج کے فتنہ کو جس طرح ممکن ہو دور کرو‘ باقی صوبوں اور ولایتوں کے حاکموں کے نام پروانے بھیجے‘ اور ان کو لکھا کہ لوگوں سے ہمارے نام پر بیعت لے لو اور اپنے آپ کو ہماری جانب سے منصوب و مامور سمجھو۔ فارس کی حکومت پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے زیاد بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو مقرر و مامور کر رکھا تھا‘ زیاد شیعان علی رضی اللہ عنہ میں سے سمجھا جاتا تھا‘ زیاد کی عقل و دانائی تمام ملک عرب میں مشہور تھی‘ فارس کے صوبہ پر زیاد کی حکومت نہایت عمدگی سے قائم تھی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ فکر پیدا ہوئی کہ اگر