تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اپنی طرف سے حاکم مقرر کیا اس سے پیشتر جرجان کسی شہر کا نام نہ تھا بلکہ وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا‘ جس میں چھوٹے چھوٹے بہت سے دیہات شامل تھے‘ یزید بن مہلب نے ایک شہر آباد کیا جس کا نام جرجان مشہور ہوا‘ اس کے بعد طبرستان کو فتح کر کے اپنا عامل مقرر کیا۔ مسلمہ بن عبدالملک سنہ ۹۷ھ میں مسلمہ بن عبدالملک نے علاقہ رضاخیہ کو فتح کیا۔ سنہ ۹۸ھ میں ایک رومی سردار القون نامی نے حاضر دربار خلافت ہو کر قسطنطنیہ کے فتح کرنے کی ترغیب دی۔ سلیمان نے اپنے بیٹے دائود اور اپنے بھائی مسلمہ کو فوج دے کر قسطنطنیہ کی طرف روانہ کیا۔ مسلمہ اس فوج کا سپہ سالار اعظم تھا۔ مسلمہ نے جا کر قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ جب لشکر اسلام قسطنطنیہ کے قریب پہنچا تھا تو مسلمہ نے لشکریوں کو حکم دیا تھا کہ ایک ایک مدغلہ ہر شخص اپنے ہمراہ لیتا چلے اور لشکر گاہ میں لے جا کر جمع کرے۔ قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے بعد یہ غلہ جمع کیا گیا تو غلہ کے انبار پہاڑوں کی طرح جمع ہو گئے۔ مسلمہ نے قسطنطنیہ کا محاصرہ ڈال کر فوج والوں کے لیے مکانات مٹی پتھر کے بنوا دیے اور میدانوں میں کھیتی کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ کھیتی پک کر تیار ہو گئی۔ روزانہ اخراجات خورد و نوش کے لیے غلہ لوٹ مار کے ذریعہ سے فراہم کیا جاتا تھا۔ غلہ کے انبار محفوظ تھے۔ کھیتی پک کر تیار ہو گئی تھی۔ اہل قسطنطنیہ اس عزم و ہمت اور استقلال کے ساتھ محاصرہ دیکھ کر سخت پریشان ہوئے۔ سال بھر گزرنے کے بعد انہوں نے خفیہ پیغاموں کے ذریعے سے اسی رومی سردار القون نامی کو اپنی طرف متوجہ کر کے اس بات کا لالچ دیا کہ اگر مسلمانوں کا محاصرہ اٹھوا دو اور ان کو یہاں سے رخصت کر دو تو ہم آدھا ملک تم کو دے دیں گے۔ القون اس پر رضا مند ہو گیا۔ اس نے مسلمہ کو مشورہ دیا کہ اگر تم اپنے غلہ کے انباروں اور کھیتوں کو آگ لگا دو گے تو رومی لوگ یہ سمجھیں گے کہ اب مسلمان سخت اور فیصلہ کن حملہ کرنے پر مستعد ہو گئے ہیں۔ لہٰذا امید ہے کہ وہ فوراً شہر آپ کے سپرد کر دیں گے اور بغیر لوٹے ہوئے بہ آسانی شہر پر قبضہ ہو سکے گا۔ مسلمہ رومی سردار کے اس چکمے میں آ گیا۔ حالانکہ اس سے پیشتر رومی‘ مسلمہ کے پاس یہ پیغام بھیج چکے تھے کہ ہم سے فی کس ایک اشرفی کے حساب سے جزیہ لے لو اور محاصرہ اٹھا کر چلے جائو لیکن مسلمہ ان کی اس درخواست کو رد کر چکا تھا۔ چند روز اور محاصرہ جاری رہتا تو قسطنطنیہ کے فتح ہونے میں کوئی شبہ باقی نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کو ابھی منظور نہ تھا کہ مسلمان قسطنطنیہ پر قابض و متصرف ہوں۔ چنانچہ مسلمہ نے غلہ کے انباروں اور کھیتوں میں آگ لگوا دی۔ اس احمقانہ فعل کا اثر یہ ہوا کہ رومی بہت خوش ہوئے اور مدافعت پر دلیر ہو گئے۔ مسلمانوں کو غلہ کی تکلیف ہونے لگی۔ ادھر القون مع اپنے ہمراہیوں کے لشکر اسلام سے جدا ہو کر رومیوں میں جا ملا۔ سلیمان بن عبدالملک‘ مسلمہ کو روانہ کرنے کے بعد خود مقام وابق میں مقیم تھا اور یہیں سے ہر قسم کی امداد مسلمہ کو پہنچاتا رہتا تھا۔ ادھر کھیتی اور غلہ کو جلا دیا گیا‘ ادھر موسم سرما کے آ جانے کی وجہ سے سلیمان سامان رسد وغیرہ کی امداد مسلمہ تک نہ پہنچا سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لشکر اسلام کو فاقے ہونے لگے اور بھوک کی وجہ سے لوگ مرنے شروع ہوئے کیونکہ اب ارد گرد کے علاقے سے بھی غلہ لوٹ مار کے ذریعے سے حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر قیصر کے سردار برجان نامی نے جو شہر صقلیہ کا گورنر