تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لینا چاہتا تھا‘ مگر نہایت مجبور ہو کر اس نے تیز رفتار قاصد ہرثمہ کے پاس بھیجا اور خط میں لکھا کہ تم فوراً راستہ ہی سے واپس لوٹ آئو اور ابوالسرایا کے قصے کو چکائو‘ ہرثمہ یہ نہ چاہتا تھا کہ حسن بن سہل کے کاموں میں سہولت پیدا ہو مگر چونکہ حسن نے خود امداد و اعانت طلب کی تھی اس لیے ہرثمہ نے انکار مناسب نہ سمجھا اور فوراً بغداد کی جانب لوٹ پڑا‘ ہرثمہ بغداد میں اس وقت داخل ہوا جب کہ ابوالسرایا نہر صرصر کے قصر ابن ہبیرہ کی جانب مدائن کے محاصرہ کی خبر سن کر روانہ ہوا تھا۔ ہرثمہ نے بغداد سے بلا توقف ابوالسرایا کے تعاقب میں کوچ کر دیا‘ راستے میں اول ابوالسرایا کے ہمراہیوں کی ایک جماعت ملی‘ اس کو ہرثمہ نے گھیر کر قتل کر ڈالا‘ پھر تیزی سے آگے بڑھ کر ابوالسرایا کو جا لیا‘ ابوالسرایا نے لوٹ کر مقابلہ کیا‘ اس معرکہ میں ابوالسرایا کے بہت سے ہمراہی مارے گئے‘ ابوالسرایا اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور کوفہ میں پہنچ کر بنو عباس اور ان کے ہواخواہوں کے مکانات کو چن چن کر خوب لوٹا اور سب کو مسمار و ویران کر دیا‘ ان کا مال و اسباب اور امانتیں جو لوگوں کے پاس تھیں سب پر قبضہ کیا‘ ہرثمہ نے بڑھ کر کوفہ کا محاصرہ کر لیا‘ ابوالسرایا نے کوفہ میں محصور ہو کر قریباً دو مہینے تک مدافعت میں استقامت دکھائی لیکن محاصرہ کی شدت سے مجبور و مایوس ہو کر محمد بن جعفر بن محمد کو ہمراہ لے کر آٹھ سو سواروں کے ساتھ کوفہ سے بھاگ نکلا‘ ۱۵ محرم ۲۰۰ھ کو ہرثمہ نے کوفہ میں داخل ہو کر وہاں ایک عامل مقرر کیا اور ایک روزہ قیام کے بعد بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ ابوالسرایا کوفہ سے قادسیہ اور قادسیہ سے طوس کی جانب روانہ ہوا‘ مقام خوزستان میں ایک قافلہ مل گیا جو اہواز سے بہت سا مال و اسباب لیے ہوئے جا رہا تھا‘ ابوالسرایا نے اس کو لوٹ کر مال و اسباب اپنے ہمراہیوں میں تقسیم کر دیا۔ انہیں ایام میں حسن بن علی مامونی نے اہواز سے ابوالسرایا کے عامل کو بھگا کر اہواز پر قبضہ کر لیا تھا‘ جب حسن بن علی نے ابوالسرایا کی اس زیادتی کا حال سنا تو وہ اہواز سے فوج لے کر ابوالسرایا کے تعاقب میں روانہ ہوا‘ دونوں کا مقابلہ ہوا اور ابوالسرایا کو شکست فاش حاصل ہوئی‘ ابوالسرایا شکست پا کر موضع راس عین علاقہ جلولاء میں آیا‘ حسن بن علی نے خبر پا کر فوراً ابوالسرایا کو جا گھیرا‘ اور ابوالسرایا کو معہ محمد بن جعفر بن محمد گرفتار کر کے حسن بن سہل کی خدمت میں بھیج دیا‘ حسن بن سہل نے ابوالسرایا کو قتل کرا کر اس کی لاش کو بغداد کے پل پر لٹکا دیا اور اس کے سر کو معہ محمد بن جعفر بن محمد کے مامون کی خدمت میں روانہ کیا‘ علی بن سعید نے مدائن کو فتح اور ابوالسرایا کی فوج کو قتل کر کے حسن بن سہل کے حکم کے موافق اول واسط کی طرف جا کر اس پر قبضہ کیا‘ پھر واسط سے بصرہ کی طرف کوچ کیا اور وہاں زید بن موسیٰ بن جعفر صادق کو بے دخل کر کے بصرہ پر قبضہ کیا۔ زید بن موسیٰ نے بصرہ میں تمام بنو عباس اور ان کے ہوا خواہوں کے مکانات آگ لگوا کر خاک سیاہ کر دئیے تھے‘ اس لیے زید النار کے نام سے شہرت پائی تھی‘ علی بن سعید نے زید النار کو گرفتار کر کے نظر بند کر دیا‘ اس طرح محرم ۲۰۰ھ میں ابوالسرایا اور ملک عراق کے فتنوں کا تو خاتمہ ہوا لیکن حجاز و یمن میں ابھی تک شورش و بد امنی بدستور باقی تھی۔ حجاز و یمن کی بدامنی جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے ابوالسرایا نے آل ابی طالب ہی کو صوبوں اور ولایتوں