تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دے دیا گیا‘ مہلب نے اس کوفی حصہ فوج پر اپنی طرف سے اپنے بیٹے حبیب بن مہلب کو سردار مقرر کیا‘ اور قریب ایک سال نیشا پور میں ٹھہرا خوارج کا مقابلہ کرتا رہا‘ آخر خوارج کے اندر خود پھوٹ پڑی‘ اور دو گروہ ہو کر آپس میں لڑنے لگے‘ مہلب نے اس حالت میں ان پر کوئی حملہ نہیں کیا‘ جب ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ کو مغلوب کر کے طبرستان کی طرف نکال دیا تو مہلب نے غالب فرقہ پر حملہ کر کے اس کو قتل کیا‘ اور اس طرح خوارج کے فتنے سے ۷۷ھ میں مہلب نے فراغت پائی۔ خوارج اس قدر بہادر اور ایسی بے جگری سے لڑنے والے لوگ تھے‘ کہ انہوں نے بسا اوقات دس دس اور بیس بیس گنی فوج کو شکست دے کر بھگا دیا تھا‘ ایک مرتبہ ایک ہزار خوارج نے کوفہ کے قریب پچاس ہزار کے لشکر کو شکست فاش دے کر بھگا دیا تھا۔ خوارج کے مقابلہ میں صرف مہلب بن ابی صفرہ ہی کا ایک ایسا سردار تھا جو پورے طور پر کامیاب ہوا‘ جس وقت مہلب خوارج کی جنگ سے فارغ ہو کر کوفہ میں حجاج کے پاس آیا ہے‘ تو حجاج نے ایک عظیم الشان دربار منعقد کیا اور مہلب کو اپنے برابر مسند پر بٹھایا‘ مہلب کے سات بیٹے تھے‘ انہوں نے بھی خوارج کے مقابلہ میں انتہائی بہادری کے نمونے دکھلائے تھے‘ لہٰذا ان کی تنخواہوں میں دو دو ہزار درہم سالانہ اضافہ کیا گیا۔ خوارج کا جو مغلوب گروہ طبرستان کی طرف بھاگا تھا‘ اس کے سر پر بھی حجاج نے فوج روانہ کی اور ان ہی ایام میں وہ لوگ بھی برباد کر دیئے گئے۔ ۷۶ھ میں خوارج کے ایک گروہ نے صالح بن مسرح کی سرداری میں موصل کے اندر شورش برپا کی تھی‘ ان کے مقابلہ کے لیے محمد بن مروان برادر عبدالملک امیر موصل نے فوج متعین کی‘ بہت سے مقابلوں اور معرکوں کے بعد صالح مارا گیا‘ اس کی جگہ شبیب خوارج کا سردار بنا‘ وہ اپنی جمعیت کو لے کر مدائن کی طرف چلا گیا‘ حجاج نے ان کے تعاقب میں بھی فوجیں بھیجنی شروع کیں‘ مگر ان کو مغلوب نہ کیا جا سکا‘ شبیب کے ہمراہ کل ایک ہزار آدمی تھے‘ ایک مرتبہ وہ ان ہی ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ کوفہ میں مقیم رہ کر چلا گیا‘ انہیں ایک ہزار کے مقابلہ پر حجاج نے پچاس ہزار کوفیوں کی فوج بھیجی اور خوارج نے ان پچاس ہزار کو شکست دے کر بھگا دیا‘ آخر یہ ایک ہزار کی جمیعت بھی معہ اپنے سردار شبیب کے غارت و برباد ہو گئی۔ حجاج و مہلب کی عزت افزائی عبدالملک بن مروان کے لیے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے بعد سب سے زیادہ خطرناک خوارج کا فتنہ تھا‘ اگر عبدالملک خوارج کی طرف سے چند روز اور بے فکر رہتا‘ اور ان کے استیصال کی تدبیروں میں مصروف نہ ہو جاتا‘ تو یقینا خراسان‘ و فارس و عراق وغیرہ صوبے اس کے قبضے سے نکل گئے ہوتے‘ اس فتنہ کو فرو کرنے کے لیے حجاج نے اپنے فرائض کو عراق میں آکر نہایت خوبی کے ساتھ انجام دیا‘ مہلب بن ابی صفرہ کا انتخاب بھی خوارج کی سرکوبی کے لیے بہت عمدہ اور صحیح انتخاب تھا‘ اب جب کہ کئی برس کی کوششوں کے بعد خوارج کی طرف سے اطمینان حاصل ہوا تو عبدالملک نے ۷۸ھ میں کوفہ و بصرہ یعنی عراق کے سوا خراسان و سجستان بھی براہ راست حجاج کی حکومت و انتظام میں دے دے‘ اس طرح حجاج کو گویا تمام مشرقی ممالک اسلامیہ کا حاکم بنا دیا‘ حجاج نے اسی سال مہلب بن ابی صفرہ کو خراسان کا امیر اور عبیداللہ بن ابو بکرہ کو سجستان کا امیر بنا کر روانہ کیا‘ مہلب اب تک ایک مشہور سپہ سالار تھا لیکن اب وہ امیر خراسان بن گیا۔