تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اس کو رضا مند کر کے لے لیا اور مصر سے چلتے وقت اس آخری عباسی خلیفہ کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا اس عباسی خلیفہ نے سلطان سلیم کو امر خلافت میں اپنا جانشین بنا دیا اور اس طرح ۹۲۲ھ میں عباسیوں کی وہ خلافت جو سفاح سے شروع ہو کر اب آٹھ سو برس کے بعد برائے نام اور اسم بے مسمیٰ ہو کر رہ گئی تھی ختم ہوئی اور خاندان عثمانیہ میں جو اس زمانہ میں سے سب زیادہ حق دار خلافت تھا شروع ہوئی‘ خاندان عباسیہ میں سینتیس خلیفہ بغداد و عراق میں ہوئے اور اٹھارہ مصر میں ہوئے جن کی کل تعداد پچین ہوتی ہے۔ خاندان عباسیہ کے سلسلہ پر نظر ڈالتے ہوئے اس وقت ہم بہت دور آگے نکل آئے ہیں اب ہم کو پھر اس سلسلہ کے شروع میں واپس جانا ہے اور دائیں بائیں طرف جن ضروری اور اہم شاخوں کو چھوڑتے چلے آئے ہیں ان کا مطالعہ کیے بغیر ہی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے شاید اس جگہ قارئین کرام کو خلافت عباسیہ کے متعلق کسی تبصرہ اور ریویو کی توقع ہو لیکن میں کہنے کے قابل باتیں سب کہہ چکا ہوں اور اب اس اثر کو جو اس عظیم الشان خاندان خلافت کا انجام دیکھ لینے کے بعد فطری طور سے قلب پر طاری ہوا ہے ضائع کرنا نہیں چاہتا‘ ہاں! اگلے باب میں بعض ضروری باتیں گوش گذار کر کے اس جلد کو ختم کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق۔ --- باب : ۶پہلی فصل خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ کے حالات ختم ہو چکے ہیں مگر ان حالات کے پڑھنے سے خلفاء کی حکومت و طاقت‘ فتوحات اور لڑائیوں کا مختصر سا خاکہ ذہن میں قائم ہوتا ہے اور عام طور پر مؤرخین بادشاہوں اور حکمرانوں کے اسی قسم کے حالات اپنی تاریخوں میں لکھتے ہیں۔ انہیں کو بہ طور خلاصہ اوپر درج کیا گیا ہے لیکن آج کل فن تاریخ نے جو ترقی کی ہے‘ اس کی وجہ سے کسی نئی مرتب کی ہوئی تاریخ میں یہ بھی تلاش کیا جاتا ہے کہ جس زمانہ یا جس سلطنت کی تاریخ ہے‘ اس زمانہ یا سلطنت میں اصول حکمرانی کیا تھے؟ لوگوں کی معاشرت کیسی تھی اور علمی ترقیات کی کیا کیفیت تھی؟ وغیرہ۔ کتاب مطالعہ کرنے والوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے کم از کم اس سے دوگنی تعداد کے صفحات اور درکار ہیں اور کماحقہ یہ خواہش اس مختصر کتاب کے ذریعہ سے پوری نہیں ہو سکتی۔ اس نقص کا اقرار کر لینے کے بعد ذیل میں چند اشارات بعض قابل قدر کتابوں کی مدد سے درج کرتا ہوں۔ سلطنت کے قابل تذکرہ اہل کار اور عہدے دار خلافت بنو امیہ ایک فاتح و ملک گیر سلطنت تھی اور اس کے زمانہ میں عرب قوم فاتح اور تمام اقوام مفتوح سمجھی جاتی تھیں‘ عربوں میں مذہبی جوش موجود تھا اور قرآن کریم و سنت رسول اللہ کے سوا کوئی قانون ان کے لیے واجب التعمیل اور نافذ الفرمان نہ ہو