تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مقام پر بیان ہوں گے۔ ان شاء اللہ معتز باللہ کی معزولی اور موت خلیفہ معتز ترک سرداروں کے قبضہ میں تھا‘ وہ جو چاہتے کرتے تھے‘ خزانہ بالکل خالی ہو گیا تھا‘ بڑے بڑے سرداروں نے خزانہ پر خود تصرف کر لیا تھا‘ فوج کے آدمی خلیفہ سے اپنے وظائف کا تقاضہ کرتے تھے‘ خلیفہ سخت مجبور تھا‘ آخر ایک روز ترکوں نے جمع ہو کر امیرالمومنین کے دروازے پر جا کر شور و غل مچایا اور کہا کہ ہم کو کچھ دلوائیے‘ ورنہ ہم صالح بن وصیف کو جو آج کل آپ پر قبضہ کیے ہوئے ہے قتل کر ڈالیں گے۔ صالح بن وصیف ایک ترک سردار تھا‘ خلیفہ اس سے بہت ہی ڈرتا تھا‘ اس شورش کو دیکھ کر معتز اپنی ماں فتحیہ ردمی کے پاس گیا کہ کچھ مال ہو تو اس ہنگامہ کو فرو کر دوں‘ فتحیہ کے قبضہ میں بہت سا مال تھا‘ مگر اس نے دینے سے انکار اور ناداری کا عذر کیا‘ ترکوں نے صالح بن وصیف اور محمد بن بغا صغیر اور بابکیال کو اپنا شریک بنا لیا اور ان سرداروں کی معیت میں مسلح ہو کر قصر خلافت کے دروازے پر آئے اور معتز کو بلایا‘ خلیفہ معتز نے کہلا بھیجا کہ میں نے دوا پی ہے‘ بیمار اور بہت کمزور ہوں‘ باہر نہیں آ سکتا‘ یہ سن کر ترک قصر خلافت میں زبردستی گھس گئے اور خلیفہ معتز کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائے۔ اس کو مارا‘ گالیاں دیں اور صحن مکان میں برہنہ سر دھوپ میں کھڑا کر دیا‘پھر ہر ایک شخص جو گذرتا تھا اس کے منہ پر طمانچہ مارتا تھا‘ یہاں تک کہ جب خلیفہ کی بے عزتی حد کو پہنچ گئی تو اس سے کہا کہ اپنی خلافت سے دست برداری لکھ دو‘ معتز نے اس سے انکار کیا تو قاضی القضات حسین بن ابی شوراب کو بلایا اور اراکین سلطنت طلب کئے گئے‘ ایک محضر لکھا‘ اس پر قاضی صاحب اور تمام اراکین سلطنت سے دستخط کرائے اور معتز کو معزول کر کے ایک تہ خانے میں بے آب و دانہ بند کر دیا‘ وہیں اس کا دم نکل گیا۔ یہ واقعہ ماہ رجب ۲۵۵ھ کا ہے اور معتز کی موت ۸ شعبان ۲۵۵ھ کو واقع ہوئی‘ اس کے بعد لوگوں نے بغداد سے معتز کے چچا زاد بھائی محمد بن واثق کو بلا کر تخت سلطنت پر بٹھایا‘ اور مہتدی باللہ کا خطاب دیا۔ خلیفہ معتز کی ماں اپنے بیٹے کی گرفتاری و بے حرمتی کا حال دیکھ کر ایک سرنگ کے راستے فرار ہو گئی اور سامرا میں کسی جگہ چھپ گئی تھی‘ جب مہتدی خلیفہ ہو گیا تو ماہ رمضان ۲۵۵ھ میں صالح بن وصیف سے جو خلیفہ مہتدی کا نائب السطنت بنا ہوا تھا‘ امان طلب کر کے ظاہر ہوئی‘ صالح نے اس کے مال و دولت کا سراغ لگایا تو اس کے پاس سے ایک کروڑ تین لاکھ دینار اور اس سے بہت زیادہ کے جو ہرات نکلے‘ حالانکہ پچاس ہزار دینار معتز مانگتا تھا اور اتنے ہی میں فوج کی شورش اس وقت فرو ہو سکتی تھی‘ صالح نے فتحیہ کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کر کے کہا کہ اس کم بخت عورت نے پچاس ہزار دینار کے عوض اپنے بیٹے کو قتل کرا دیا حالانکہ اس کے قبضے میں کروڑوں دینار تھے۔ اس کے بعد صالح نے فتحیہ کو مکہ کی طرف بھیج دیا‘ وہ معتمد کے تخت نشین ہونے تک مکہ میں رہی‘ پھر سامرہ میں چلی آئی‘ اور ۲۶۴ھ میں مر گئی۔ مہتدی باللہ مہتدی باللہ بن واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کا اصل نام محمد اور کنیت ابو