تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ابومسلم معہ اپنے لشکر کے جب نصیبین کے قریب پہنچا تو نصیبین کا رخ چھوڑ کر شام کے راستے پر پڑاو ڈالا اور یہ مشہور کیا کہ مجھ کو عبداللہ بن علی سے کوئی واسطہ نہیں‘ میں تو شام کی گورنری پر مامور کیا گیا ہوں اور شام کو جا رہا ہوں‘ عبداللہ بن علی کے ہمراہ جو شامی لوگ تھے وہ یہ سن کر گھبرائے اور انہوں نے عبداللہ بن علی سے کہا کہ ہمارے اہل و عیال ابومسلم کے پنجۂ ظلم میں گرفتار ہو جائیں گے بہتر یہ ہے کہ ہم اس کو شام کی طرف جانے سے روکیں‘ عبداللہ بن علی نے ہر چند سمجھایا کہ وہ ہمارے ہی مقابلہ کو آیا ہے شام میں نہ جائے گا لیکن کوئی نہ مانا‘ آخر عبداللہ بن علی نے اس مقام سے کوچ کیا‘ جب عبداللہ بن علی اپنے مقام کو چھوڑ کر شام کی طرف روانہ ہوا تو ابومسلم فوراً عبداللہ بن علی کی بہترین لشکر گاہ میں آکر مقیم ہو گیا اور عبداللہ بن علی کو لوٹ کر اس مقام پر قیام کرنا پڑا‘ جس میں پہلے ابومسلم مقیم تھا‘ اس طرح ابومسلم نے بہترین لشکرگاہ حاصل کر لی۔ اب دونوں لشکروں میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا‘ کئی مہینے تک لڑائی ہوتی رہی آخر ۷ جمادی الثانی یوم چہار شنبہ ۱۳۷ھ کو عبداللہ بن علی نے شکست کھائی اور ابومسلم نے فتح پاکر فتح کا بشارت نامہ منصور کے پاس بھیجا‘ عبداللہ بن علی نے اس میدان سے فرار ہو کر اپنے بھائی سلیمان بن علی کے پاس جاکر بصرہ میں پناہ لی اور ایک مدت تک وہاں چھپا رہا۔ قتل ابومسلم جب عبداللہ بن علی کو شکست ہوئی اور ابومسلم نے اس کے لشکرگاہ کو لوٹ لیا اور مال غنیمت خوب ہاتھ آیا تو منصور نے اس فتح کا حال سن کر اپنے خادم ابوخصیب کو مال غنیمت کی فہرست تیار کرنے کے لیے روانہ کیا‘ ابو مسلم کواس بات سے سخت غصہ آیا کہ منصور نے میرا اعتبار نہ کیا اور اپنا آدمی فہرست مرتب کرنے کیلیے بھیجا‘ ابومسلم کی اس ناراضی و ناخوشی کی اطلاع جب منصور کو پہنچی تو اس کو یہ فکر ہوئی کہ کہیں ابومسلم ناراض ہو کر خراسان کو نہ چلا جائے چنانچہ اس نے مصر و شام کی سند گورنری لکھ کر ابومسلم کے پاس بھیج دی ابومسلم کو اس سے اور بھی زیادہ رنج ہوا کہ منصور مجھ کو خراسان سے جدا کر کے بے دست و پا کرنا چاہتا ہے چنانچہ ابومسلم جزیرہ سے نکل کر خراسان کی طرف روانہ ہوگیا‘ یہ سن کر منصور انبار سے مدائن کی طرف روانہ ہوا اور ابومسلم کو اپنے پاس حاضر ہونے کے لیے بلایا‘ ابو مسلم نے آنے سے انکار کر کے لکھ بھیجا کہ ’’میں دور ہی سے آپ کی اطاعت کروں گا‘ آپ کے تمام دشمنوں کو میں نے مغلوب کر دیا ہے‘ اب جب کہ آپ کے خطرات دور ہو گئے ہیں تو آپ کو اب میری ضرورت بھی باقی نہیں رہی‘ اگر آپ مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دیں گے تو میں آپ کی اطاعت سے باہر نہ ہوں گا اوراپنی بیعت پر قائم رہوں گا لیکن اگر آپ میرے درپے رہے تو میں آپ کی خلع کا خلافت کا اعلان کر کے آپ کی مخالفت پر آمادہ ہو جائوں گا۔ اس خط کو پڑھ کر منصور نے نہایت نرمی اور محبت کے لہجہ میں ایک خط لکھا کہ ’’ہم کو تمہاری وفاداری اور اطاعت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے‘ تم بڑے کار گزار اور مستحق انعام ہو‘ شیطان نے تمہارے دل میں وسوسے ڈال دیئے ہیں‘ تم ان وسوسوں سے اپنے آپ کو بچائو اور ہمارے پاس چلے آئو۔ یہ خط منصور نے اپنے آزاد کردہ غلام ابوحمید کے ہاتھ روانہ کیا اور ان کو تاکید کی کہ