تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وقت کاغذ منگوا کر چاروں کے لیے امان لکھ کر اور مہر لگا کر شمر ذی الجوشن کے سپرد کیا اور اسی وقت اس کو رخصت کر دیا۔ جویرہ رات کے وقت روانہ ہوا تھا اور جمعرات کے دن علی الصبح لشکر گاہ کربلا میں پہنچ گیا تھا‘ شمر صبح کے وقت روانہ ہوا ‘ اور عصر کے وقت پہنچا‘ شمرکے آنے پر تمام کیفیت جو پیش آئی تھی سنا دی‘ شمر نے کہا کہ میں تو ایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دوں گا‘ یا تو اسی وقت لڑائی کے لیے تیار ہو جائو ‘ ورنہ لشکر میرے سپرد کر دو‘ ابن سعد اسی وقت سوار ہوا اور شمر کو ہمراہ لے کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یہ دوسرا قاصد بھیجا ہے اور مہلت آپ کو بالکل دینا نہیں چاہتا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ اب مہلت کے دینے یا نہ دینے کی کیا ضرورت ہے‘ آفتاب تو غروب ہو رہا ہے‘ کیا رات کے وقت بھی تم لوگ جنگ کو کل کے لیے ملتوی نہ رکھو گے‘ یہ سن کر شمر ذی الجوشن نے بھی کل صبح تک کا انتظار مناسب سمجھا‘ اور دونوں اپنے لشکر گاہ کو واپس چلے آئے۔ حسین رضی اللہ عنہ پر پانی کی بندش رات کے وقت عبیداللہ بن زیاد کا حکم پہنچا کہ ’’اگر ابھی لڑائی شروع نہیں ہوئی ہے‘ تو اسی وقت جب کہ یہ حکم پہنچے پانی پر قبضہ کر لو اور حسین بن علی رضی اللہ عنھما اور ان کے ساتھیوں کے لیے پانی بند کر دو‘ اور اگر سپاہ شمر کے زیر کمان آگئی ہے تو شمر کو اس حکم کی تعمیل کرنی چاہیئے۔ عمرو بن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمرو بن الحجاج کو پانچ سو سوار دے کر ساحل فرات پر متعین کر دیا‘ اتفاقاً دن میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں نے پانی اپنے لیے نہیں بھرا تھا‘ ان کے تمام برتن خالی ہو گئے تھے‘ رات کو جب پانی بھرنا چاہا تو معلوم ہوا‘ کہ دشمنوں نے پانی پر قبضہ کر لیا ہے‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عباس بن علی رضی اللہ عنھما کو پچاس آدمیوں کے ہمراہ پانی لینے کو بھیجا کہ زبردستی پانی لائیں‘ مگر ان ظالموں نے پانی نہ لینے دیا‘ اب دم بدم پیاس کی شدت نے تکلیف پہنچانی شروع کی‘ یہ ایسی اذیت تھی جو تیر و شمشیر کی اذیت سے زیادہ سوہان روح تھی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بیٹے علی بن حسین رضی اللہ عنھما بیمار تھے اور خیمے میں پڑے رہتے تھے وہ اور ان کی بہن ام کلثوم رضی اللہ عنھا یہ دیکھ کر کہ صبح کو دشمنوں کا حملہ ہو گا اور تمام عزیز و اقارب جو اس وقت موجود ہیں قتل و شہید ہوں گے‘ رونے لگے‘ ان دونوں کے رونے کی آواز سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خیمہ کے اندر آئے اور کہا کہ دشمن ہمارے قریب ہی خیمہ زن ہے‘ تمہارے رونے کی آواز سن کر وہ خوش ہوں گے اور ہمراہیوں کے دل تھوڑے ہوں گے‘ تم کو ہر گز ہائے وائے کچھ نہیں کرنی چاہیئے‘ ان کو بہ مشکل خاموش کیا اور باہر آکر فرمایا کہ واقعی بچوں اور عورتوں کو ہمراہ لانے میں ہم سے بڑی غلطی ہوئی ہے‘ ان کو ہر گز ہمراہ نہ لانا چاہیئے تھا۔ اس کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں کو اپنے سامنے بلا کر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف مناسب سمجھو چلے جائو‘ تم کو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا‘ کیوں کہ دشمن کو صرف میری ذات سے بحث ہے‘ تمہارے چلے جانے کو تو وہ غنیمت سمجھیں گے۔ میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جان بچا لو‘ ہمرائیوں نے