تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مرتبہ جب کہ منصور بغداد کی تعمیر کے معائنہ کو آیا تھا وہ منصور کے آدمیوں میں ملے جلے اس کے ساتھ موجود تھے‘ منصور کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ابراہیم یہاں موجود ہیں مگر اس مرتبہ بھی منصور ان کو گرفتار نہ کرا سکا۔ اسی طرح محمد مہدی بھی حجاز میں رباح کی سخت ترین کوشش و تلاش کے باوجود اس کے ہاتھ نہ آئے آخر ۱۴۵ھ میں ابوعون عامل خراسان نے منصور کے پاس ایک تحریر بھیجی کہ خراسان میں مخفی سازش بڑی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے‘ اور تمام اہل خراسان محمد مہدی کے خروج کا انتظار کر رہے ہیں‘ منصور نے اس تحریر کو پڑھتے ہی محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو قید خانے سے بلا کر جلاد کے سپرد کیا اور ان کا سر اتروا کر خرسان بھیج دیا‘ اس سر کے ساتھ چند آدمی ایسے بھیجے گئے‘ جنہوں نے جا کر قسم کھا کر شہادت دی کہ یہ سر محمد بن عبداللہ کا ہے اور ان کی دادی کا نام فاطمہ بنت رسول اللہ تھا‘ اس طرح اہل خراسان کو دہوکہ دیا گیا کہ محمد مہدی قتل ہو گئے اور یہ انہیں کا سر ہے۔ پھر منصور نے محمد بن ابراہیم بن حسن رضی اللہ عنہ کو زندہ ایک ستون میں چنوا دیا‘ اس کے بعد عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما اور علی بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما کو قتل کیا گیا‘ پھر ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما اور عباس بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما وغیرہ کو سخت اذیتوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔ منصور کی یہ سنگدلی اور قساوت قلبی نہایت حیرت انگیز ہے‘ بنوامیہ علویوں کے مخالف اور دشمن تھے اور عباسی تو اب تک علویوں کے ساتھ شیروشکر چلے آتے تھے‘ بنوامیہ کی علویوں سے کوئی قریبی رشتہ داری نہ تھی لیکن عباسیوں اور علویوں کا تو بہت ہی قریبی رشتہ تھا‘ علویوں نے بنو امیہ کی سخت مخالفت کی تھی اور بارہا بنوامیہ کے خلاف تیروتلوار کا استعمال کر چکے تھے لیکن بنوعباس کے خلاف ابھی تک انہوں نے کوئی جنگی مظاہرہ بھی نہیں کیا تھا‘ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھو اور سوچو کہ بنو امیہ نے کسی علوی کو اس طرح محض شبہ میں گرفتار کر کے قتل نہیں کیا بلکہ ان کے ہاتھ سے وہی علوی قتل ہوئے جو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے‘ مگر منصور نے بالکل بے گناہ اولاد حسن رضی اللہ عنہ کے کتنے افراد کس قساوت قلبی اور بیدردی کے ساتھ قتل کئے ہیں‘ منصور کا یہ قتل سادات جرم و گناہ کے اعتبار سے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے قتل حسین سے بہت بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے‘ شاید اسی کا نام دنیا ہے جس کی ہوس میں انسان اندھا ہو کر ہر ایک ناشدنی کام کر گزرتا ہے۔ محمد مہدی نفس ذکیہ کا خروج جب منصور نے عبداللہ بن حسن اور دوسرے افراد آل حسن رضی اللہ عنہ کو قتل کرادیا تو محمد مہدی نے اس خبر کو سنکر زیادہ انتظار مناسب نہ سمجھا‘ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ لوگ ہمارا ساتھ دینے اور منصور کی خلع خلافت کرنے کے لیے ہر جگہ تیار ہیں‘ چنانچہ انہوں نے اپنے مدینہ کے دوستوں سے خروج کا مشورہ کیا‘ اتفاقاً عامل مدینہ رباح کو جاسوسوں کے ذریعہ اس کی اطلاع ہو گئی کہ آج محمد مہدی خروج کرنے والے ہیں ‘ اس نے جعفر بن محمد بن حسین رضی اللہ عنھما اور حسین بن علی بن حسین اور چند قریشیوں کو بلا کر کہا کہ اگر محمد مہدی نے خروج کیا تو میں تم کو قتل کر دوں گا‘ ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ تکبیر کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ محمد مہدی رحمہ اللہ تعالی