تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سلطنت کے قابل تذکرہ صیغے اور دفتر خلیفہ اگرچہ مطلق العنان فرماں روا سمجھا جاتا تھا مگر وہ اپنی حکمرانی و فرماں روائی میں بالکل خلیع الرسن اور آزاد نہ تھا‘ خلیفہ بناتے وقت جب اس کے ہاتھ پر بیعت کی جاتی تھی تو اس میں اتباع قرآن و سنت کی شرط ضرور ہوتی تھی‘ علماء و فقہاء خلیفہ کے خلاف شرع کاموں پر اعتراض کرنے اور اس کو روکنے ٹوکنے کا حق رکھتے تھے‘ اس حق کے استعمال کرنے میں اگر خلیفہ کی طاقت سدراہ ہو تو عوام اس طاقت کا مقابلہ کر کے اور علماء شرع کی حمایت پر مستعد ہو کر خلیفہ کو نیچا دکھانے اور معزول کرنے پر فوراً آمادہ ہو جاتے تھے‘ بعض اوقات علماء اپنے اس فرض اور حق کو ادا کرنے میں پہلو تہی کرتے تھے‘ اسی کا نتیجہ تھا کہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور خلافت دم بدم کمزور ہو چلی گئی۔ خلیفہ کی ذات میں جو عظمت و شوکت موجود ہوتی تھی اس کے ذریعہ خلیفہ کبھی کبھی بلا مشورہ بھی احکام جاری کر دیتا اور اپنے احکام کی تعمیل کرا سکتا تھا‘ لیکن عام طور پر رعایا کے بہبود سے تعلق رکھنے والے کام سب مقررہ قوانین و آئین کے تحت انجام پذیر ہوتے تھے اور بحیثیت مجموعی سلطنت کی مشین نہایت باقاعدگی کے ساتھ چلتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ باوجود سلاطین کی آپس کی لڑائیوں اور امراء کی نااتفاقیوں کے عہد خلافت عباسیہ میں علوم و فنون میں ترقی کرنے اور مہذب و شائستہ ہونے کا لوگوں کو خوب موقعہ ملتا رہا۔ خلافت عباسیہ کے ابتدائی ایام میں مختلف علوم و فنون کی بنیاد قائم ہو چکی تھی‘ قیمتی تصانیف شروع ہو گئی تھیں‘ اس کے بعد حکومت عباسیہ کمزور ہوتی گئی‘ مگر ان علمی ترقیات اور علوم و فنون کی نشوونما اور ایجادات کی رفتار میں کوئی کمی اور سستی واقع نہیں ہوئی‘ اس کا بڑا سبب یہی تھا کہ نظام حکومت جو اسلامی اصولوں پر قائم ہوا تھا وہ سلطنت کے ضغیف اور جنگ و جدل کے قوی ہو جانے کی حالت میں بھی بالکل روگرواں اور سراسر درہم برہم نہیں ہوا بلکہ بد امنی کے زمانے میں بھی اس کی روح موجود رہتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ علمی و معاشرتی و اخلاقی ترقیات کو کبھی زبردست دھکا نہیں لگا۔ سامانیوں‘ صفاریوں‘ سلجوقیوں کی حکومتیں زیادہ مستقل اور پائدار نہ تھیں مگر ان کے عہد حکومت اور حدود سلطنت میں بھی بڑے بڑے زبردست عالم پیدا ہوئے اور علوم و فنون کے مشہور اماموں نے اپنے زندہ جاوید کار نامے چھوڑے۔ دیوان العزیز دربار خلافت کا نام دیوان العزیز تھا‘ جو وزیر کار سلطنت کے تمام صیغوں پر اختیار کلی رکھتے تھے اور انہیں کے ہاتھ میں زمام سلطنت سمجھی جاتی تھی ان کے دفتر اور ان کے محکمہ پر بھی دیوان العزیز کا لفظ بولا جاتا تھا‘ تمام دفاتر اور تمام محکمے اور صیغے اسی کے ماتحت ہوتے تھے‘ وزیراعظم کو متعلقہ صیغوں کے افسروں سے مشورہ کرنے کے بعد احکام جاری کرنے پڑتے تھے۔ دیوان الخراج اس کو محکمہ مال سمجھنا چاہیئے‘ یہ محکمہ کبھی براہ راست وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور کبھی اس کا مہتمم ایک جدا وزیر ہوتا تھا جو وزیر اعظم کا ماتحت سمجھا جاتا تھا‘ کبھی کبھی خلیفہ وزیر مال کا تعلق وزیراعظم سے نہیں رکھتا تھا‘ بلکہ براہ راست خود