تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حاصل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ مفرور عربی قبائل جو سندھ و کشمیر و پنجاب وغیرہ کی طرف بھاگ کر آئے تھے کہا جاتا ہے کہ ان کی نسلیں آج تک ہندوستان میں موجود ہیں اور اپنے بدلے ہوئے ناموں اور پیشوں کی وجہ سے اپنے عربی نژاد ہونے کو بھول گئی ہیں۔ بنو امیہ کا ایک شخص عبدالرحمن بن معاویہ بن ہشام شکار ہوتے ہوتے بال بال بچ گیا اور فرار ہو کر مصر و قیروان ہوتا ہوا اندلس میں پہنچ گیا‘ اندلسی چونکہ دعوت عباسیہ کے اثر سے نسبتاً پاک تھا اور وہاں بنوامیہ کے ہواہ خواہ بکثرت موجود تھے‘ لہٰذا اندلس پہنچتے ہی اس ملک پر قابض ہو گیا اور ایک ایسی سلطنت و خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہوا جس کو عباسی خلفاء ہمیشہ رشک کی نگاہوں سے دیکھتے رہے اور اس اموی سلطنت کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ ۱؎ گویا عصبیت کی انتہا ہو گئی تھی کہ بنو امیہ کو درندوں کی طرح شکار کیا جاتا تھا۔ یہ عباسیوں کی جاہلانہ سوچ تھی۔ جبکہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں عصبیت کی طرف بلانے والے کی اسی حالت میں موت کو جاہلیت کی موت کہا گیا ہے۔ باب : ۳خلافت عباسیہ ابوالعباس عبداللہ سفاح ابوالعباس عبداللہ سفاح بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم سنہ ۱۰۴ھ میں بمقام حمیمہ علاقہ بلقاء میں پیدا ہوا۔ وہیں پرورش پائی۔ اپنے بھائی ابراہیم امام کا جانشین ہوا۔ اپنے بھائی منصور سے عمر میں چھوٹا تھا۔ ابن جریر طبری کا قول ہے کہ جس روز سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ تمہاری اولاد میں خلافت آئے گی‘ اسی وقت سے اولاد عباس خلافت کی امیدوار چلی آتی تھی۔۱؎ عبداللہ سفاح خون ریزی‘ سخاوت‘ حاضر جوابی‘ تیز فہمی میں ممتاز تھا۔ سفاح کے عمال بھی خون ریزی میں مشاق تھے۔ سفاح نے اپنے چچا دائود کو پہلے کوفہ کی حکومت پر مامور کیا پھر اس کو حجاز‘ یمن اور یمامہ کی امارت پر مامور کیا اور کوفہ پر اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ بن محمد کو مقرر کیا۔ جب سنہ ۱۳۳ھ میں دائود کا انتقال ہو گیا تو سفاح نے اپنے ماموں یزید بن عبیداللہ بن عبدالمدان حارثی کو حجاز و یمامہ کی اور محمد بن یزید بن عبداللہ بن عبدالمدان کو یمن کی گورنری پر مامور کیا۔ سنہ ۱۳۲ھ میں سفیان بن عیینہ بلبی کو بصرہ کا عامل بنایا گیا تھا۔ سنہ ۱۳۳ھ میں اس کو معزول کر کے اس کی جگہ اپنے چچا سلیمان بن علی کو سند حکومت عطا کی اور بحرین و عمان بھی اسی کی حکومت میں شامل ۱؎ یہ بنو عباس کے ہم خیال لوگوں کی گھڑی ہوئی روایت لگتی ہے‘ واللہ اعلم۔جبکہ صحیح بخاری‘