تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کسی شخص کو باہر نہ نکلنے دیں‘ پھر مسجد کے دروازے پر کرسی بچھا کر بیٹھ گئے اورچار چار شخصوں کو بلا کر قسمیں لینے لگے کہ انہوں نے سنگریزے پھینکے ہیں یانہیں‘ کل تیس آدمی ایسے نکلے جنہوں نے سنگریزے پھینکے تھے‘ باقی کو چھوڑ کر ان تیس کے ہاتھ کٹوا دیئے‘ اسی طرح اور بعض سخت سزائیں اہل کوفہ کو ان کی غلطیوں پر دی گئیں‘ تو چند روز میں وہ بالکل سیدھے ہو گئے‘ زیاد چھ مہینے کوفے اور چھ مہینے بصرے میں رہنے لگے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی عمال سے مشاورت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے نام ایک حکم جاری کیا کہ لوگوں سے یزید کی خوبیاں بیان کرو‘ اور اپنے اپنے علاقوں کے بااثر لوگوں کا ایک ایک وفد میرے پاس بھیجو کہ میں بیعت یزید کی نسبت لوگوں سے بھی خود گفتگو کروں‘ چنانچہ ہر صوبہ سے ایک ایک وفد دمشق میں آیا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے الگ الگ گفتگو کی‘ پھر ایک مجلس ترتیب دے کر سب کو اس میں جمع کیا اور کھڑے ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا‘ جس میں حمد و ثنا کے بعد اسلام کی خوبیاں‘ خلفاء کے فرائض و حقوق‘ حکام کی اطاعت اور عوام کے فرائض بیان فرما کر یزید کی شجاعت‘ سخاوت‘ عقل وتدبر اور انتظامی قابلیت کا ذکر کر کے‘ اس بات کی خواہش ظاہر کی کہ یزید کی ولیعہدی پر بیعت کر لینی چاہیئے۔ محمد بن عمرو بن حزم کی تنبیہہ ان وفود میں مدینے سے محمد بن عمرو بن حزم گئے تھے‘ انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ آپ یزید کو خلیفہ تو بنائے جاتے ہیں‘ لیکن ذرا اس بات پر بھی غور فرما لیں کہ قیامت کے دن آپ کو اپنے اس فعل کا خدائے تعالیٰ کی جناب میں جواب دہ ہونا پڑے گا‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا‘ کہ میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے اپنی رائے کے موافق میری خیر خواہی کی‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت لڑکے ہی لڑکے رہ گئے ہیں اور میرا بیٹا ان میں زیادہ مستحق ہے۔ صحاک بن قیس کی تائید اس کے بعد ضحاک بن قیس کھڑے ہوئے‘ انہوں نے اپنی زبردست تقریر میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خیال کی خوب زور و شور سے تائید کی‘ ان کے بعد اور لوگ یکے بعد دیگرے کھڑے ہوئے‘ اور سب نے تائید ہی کی۔ احنف بن قیس کا پرحکمت جواب مصر سے احنف بن قیس گئے تھے‘ جب سب کی تقریریں ہو چکیں‘ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس کی طرف مخاطب ہو کر پوچھا کہ آپ کیوں خاموش ہیں‘ انہوں نے کہا کہ اگر جھوٹ بولوں تو اللہ تعالیٰ سے ڈر لگتا ہے‘ اور سچ بولوں تو آپ کا خوف ہے‘ آپ ہم سے اس معاملہ میں مشورہ کیوں لیتے ہیں‘ آپ ہم سے زیادہ یزید کی حالت سے واقف ہیں‘ آپ کی ذمہ داری پر ہم بیعت کرنے کو تیار ہیں‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے احنف بن قیس کے ان الفاظ کو بھی بہت غنیمت سمجھا اور بعد میں ان کو بھاری انعام دے کر خوش کیا‘ اسی طرح باہر سے آئے وفود کو خوب انعام و اکرام سے مالا مال و خوش حال کر کے واپس بھیجا۔۱؎ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو سب سے زیادہ حجاز یعنی مکہ و مدینہ کے لوگوں کا خیال