تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
واپس ہوا۔ مگر واپسی کے بعد ہی رومیوں نے پھر بغاوت و سرکشی اختیار کر لی۔ اسی سال یعنی ۱۹۰ھ میں موصل کی گورنری پر خالد بن یزید بن حاتم کو مامور کیا گیا۔ اسی سال ہرثمہ بن اعین قلعہ طرطوس کی تعمیر پر مامور کیا گیا۔ خراسان کی تین ہزار فوج اور مصیصہ و انطاکیہ کی ایک ہزار فوج قلعہ طرطوس کی تعمیر میں مصروف رہی اور ۱۹۲ھ میں قلعہ کی تعمیر تکمیل کو پہنچی۔ اسی قسم کی فوج کو آج کل سفر میناکی پلٹن کہا جاتا ہے۔ اسی سال آذر بائیجان میں خرمیہ نے علم بغاوت بلند کیا۔ اس کی سرکوبی کے لیے عبداللہ بن مالک دس ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا گیا۔ عبداللہ نے باغیوں کو شکست فاش دے کر قیدیوں کو قتل کر ڈالا اور اس فتنہ کا سدباب ہوا۔ اسی سال یعنی ۳ محرم ۱۹۰ھ کو یحییٰ برمکی نے ستر برس کی عمر میں بمقام رقہ بہ حالت قید وفات پائی۔ اس کے بیٹے فضل بن یحییٰ نے جنازہ کی نماز پڑھائی۔ ۱۹۱ھ میں محمد بن فضل بن سلیمان کو خلیفہ ہارون الرشید نے موصل کی گورنری مرحمت فرمائی اور مکہ معظمہ کی امارت پر فضل بن عباس کو مامور کیا گیا۔ خراسان میں بغاوت اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ علی بن عیسیٰ کے گورنر خراسان مقرر ہونے پر برامکہ نے وہب بن عبداللہ اور حمزہ بن اترک کو بغاوت پر آمادہ کر دیا تھا۔ وہب تو مارا گیا تھا لیکن حمزہ باقی تھا۔ وہ ابھی تک ہاتھ نہیں آیا تھا اور جا بجا ڈاکہ زنی کرتا پھرتا تھا۔ علی بن عیسیٰ امیر خراسان نے سمر قند و ماوراء النہر کی ولایت پر اپنی طرف سے یحییٰ بن اشعث کو عامل مقرر کر رکھا تھا۔ ماوراء النہر کی فوج میں رافع بن لیث بن نصر بن سیار مشہور سردار تھا۔ رافع بن لیث بھی برامکہ کی جماعت کا آدمی تھا اور علی بن عیسیٰ خلیفہ ہارون سے متنفر تھا۔ اتفاقاً یحییٰ بن اشعث نے ایک عورت سے نکاح کیا۔ چند روز کے بعد رافع بن لیث نے اس عورت کو بہکایا‘ اس نے یحییٰ سے علیحدگی چاہی مگر یحییٰ نے اس کو طلاق نہ دی۔ رافع نے اس کو یہ تدبیر بتائی کہ تو اپنے مرتد ہونے کا اعلان کر اور دو گواہ مرتد ہونے کے پیش کر دے‘ فوراً یحییٰ سے تیرا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اس کے بعد پھر اسلام قبول کر لینا‘ میں تجھ سے نکاح کر لوں گا۔ عورت نے یہی تدبیر کی اور رافع کے نکاح میں آ گئی۔ غالباً نکاح فسخ کرانے کی یہ تدبیر سب سے پہلے رافع نے ایجاد کی تھی۔ یحییٰ بن اشعث نے یہ تمام کیفیت خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی‘ ہارون الرشید نے علی بن عیسیٰ گورنر خراسان کو لکھا کہ رافع اور اس عورت میں علیحدگی کرا کر رافع پر حد شرعی جاری کرو اور شہر سمر قند میں گدھے پر سوار کرا کر تشہیر کرائو۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں رافع کو اس عورت سے جدا کرا کر سمر قند کے جیل خانہ میں قید کر دیا گیا۔ ایک روز موقع پا کر رافع قید خانہ سے نکل بھاگا اور گورنر خراسان علی بن عیسیٰ کے پاس بلخ میں پہنچا۔ علی بن عیسیٰ نے اس کو قتل کرنا چاہا مگر علی کے بیٹے عیسیٰ بن علی نے سفارش کی اور علی بن عیسیٰ نے اس کو حکم دیا کہ تم سمر قند میں یحییٰ بن اشعث کے پاس جائو۔ رافع نے سمر قند پہنچ کر عامل سمر قند کو دھوکہ سے قتل کر دیا اور خود سمر قند پر قابض ہو گیا۔ یہ خبر سن کر علی بن عیسیٰ نے اپنے بیٹے عیسیٰ بن علی کو سمر قند کی طرف روانہ کیا۔ رافع سے لڑتا ہوا عیسیٰ بن علی لڑائی میں مارا گیا۔ یہ خبر سن کر علی بن عیسیٰ لشکر لے کر بلخ سے مرو کی طرف اس خیال سے آیا کہ کہیں رافع مرو پر قبضہ نہ کر