تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لگی‘ اور اس کے متبعین کی جماعی حیرت انگیز طور پر ترقی کر گئی‘ عبداللہ بن مطیع نے ایاس بن ابی مضارب کو کوتوال شہر مقرر کیا تھا‘ ایاس نے ایک روز عبداللہ بن مطیع گورنر کوفہ سے کہا کہ مختار کی جماعت خطرناک اور بہت طاقتور ہو گئی ہے‘ مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں یہ خروج نہ کرے‘ مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختار کو بلا کر قید کر دیا جائے‘ جیسا کہ وہ پہلے بھی قید تھا۔ عبداللہ بن مطیع نے مختار کے چچا زید بن مسعود ثقفی کو حسین بن رافع اژدی کے ہمراہ بھیجا کہ مختار کو ذرا میرے پاس بلا لائو‘ اس سے مجھ کو کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں‘ یہ دونوں مختار کے پاس گئے اور امیر کوفہ کا پیغام پہنچایا‘ مختار فوراً کپڑے پہن کر چلنے کے لیے تیار ہونے لگا‘ زید نے اس وقت یہ آیت پڑھی {وَاِذْیَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثَبِّتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ} (الانفال : ۸/۳۰) ’’اور (اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! وہ وقت یاد کرو) جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا مار ڈالیں یا جلا وطن کر دیں…‘‘ مختار اس آیت کو سنتے ہی سمجھ گیا کہ زید کا مطلب کیا ہے‘ اسی وقت بولا‘ جلدی لحاف لائو‘ مجھ کو جاڑا چڑھ آیا ہے اور لحاف اوڑھ کر پڑ گیا‘ کہ مجھ کو سردی معلوم ہوتی ہے‘ پھر حسین بن رافع کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھئے میں تو چلنے کے لیے تیار تھا‘ مگر کیا کروں مجھ پر مرض کا حملہ یکایک ہوا‘ اور اب میں حرکت نہیں کر سکتا‘ میری تمام حالت جو آپ دیکھ رہے ہیں امیر سے بیان کر دیں‘ کل صبح جب حالت درست ہو جائے گی‘ تو حکم کی تعمیل میں ضرور حاضر ہوں گا۔ یہ دونوں شخص وہاں سے رخصت ہوئے‘ راستے میں حسین بن رافع نے زید سے کہا کہ تم نے یہ آیت اسی لیے پڑھی تھی‘ کہ مختار امیر کے پاس نہ جائے‘ ورنہ وہ جانے کے لیے تیار تھا تمہارے روکنے سے رک گیا ہے‘ اور اس نے محض بہانہ بنایا ہے‘ یہ کہہ کر حسین نے پھر زید سے کہا کہ تم اطمینان رکھو‘ اس کا تذکرہ عبداللہ بن مطیع سے نہ کروں گا‘ کیوں کہ ممکن ہے کہ مختار کے ہاتھوں سے مجھ کو کوئی فائدہ پہنچے‘ عبداللہ بن مطیع کے پاس دونوں نے جا کر کہہ دیا کہ مختار سخت بیمار ہے‘ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آئے ہیں‘ وہ اس وقت آنے کے قابل نہیں ہے‘ کل ان شاء اللہ ضرور حاضر ہو جائے گا۔ مختار نے زید اور حسین کے جاتے ہی اپنے مریدوں یعنی بیعت شدہ لوگوں میں سے خاص خاص اور بااثر لوگوں کو بلوایا اور کہا کہ اب زیادہ توقف اور انتظار کا موقع باقی نہیں ہے‘ ہم کو فوراً خروج پر آمادہ ہو جانا چاہیئے‘ ان لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے تابع فرمان ہیں‘ جو حکم ہو اس کی تعمیل کے لیے آمادہ ہیں‘ لیکن ہم کو ایک ہفتہ کی مہلت ملنی چاہیئے‘ تاکہ ہم اپنے ہتھیاروں کو درست کر لیں اوراپنی جنگی تیاریوں سے فارغ ہو جائیں‘ مختار نے کہا کہ عبداللہ بن مطیع مجھ کو ایک ہفتہ کی کہاں مہلت دینے لگا ہے‘ سعد بن ابی سعد نے کہا کہ آپ مطمئن رہیں اگر عبداللہ بن مطیع نے آپ کو بلا کر قید کر دیا تو ہم بلا تکلف آپ کو جیل خانہ سے نکال لائیں گے‘ مختار یہ سن کر خاموش ہو گیا‘ اور لوگوں نے اس کو اس مکان سے لے جا کر ایک دوسرے غیر معروف مکان میں روپوش کر دیا۔ اس کے بعد سعد بن ابی سعد نے اپنے ہم خیال لوگوں سے کہا کہ ہم کو خروج کرنے سے پیشتر یہ تحقیق کر لینا چاہیئے‘ کہ آیا محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے مختار کو اپنا نائب اس کام کے لیے بنایا ہے یا نہیں؟ اگر واقعی یہ محمد بن حنفیہ کی طرف سے بیعت لینے