تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فضل بن مروان ایک عیسائی اس کا کار پرداز اور نائب تھا۔ جب بغداد میں مامون الرشید کی وفات کی اطلاع پہنچی تو فضل بن مروان نے اہل بغداد سے معتصم کی خلافت کی بیعت لی۔ معتصم نے بغداد میں پہنچ کر فضل بن مروان ہی کو اپنا وزیراعظم بنایا۔ مقام طرسوس میں جب معتصم کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فوج کے اکثر اراکین نے عباس بن مامون کا نام لیا کہ وہ خلافت کا زیادہ مستحق ہے۔ معتصم نے عباس کو طلب کیا اور اس نے معتصم کے ہاتھ پر بیعت کی‘ عباس کی بیعت کے بعد یہ شورش و مخالفت خود بخود فرو ہو گئی۔ معتصم نے یا تو عباس کے اثر کو مٹانے کے لیے کہ اس کے زیر اہتمام شہر طوانہ کی تعمیر و آبادی عمل میں آئی تھی یا اس لیے کہ سرحد روم پر ایک ایسا مضبوط مقام جس میں مسلمانوں کی آبادی تھی رومیوں کو ہر وقت اپنی طرف متوجہ رکھے گا‘ یا اللہ تعالیٰ جانے کس لیے کہ تخت خلافت پر متمکن ہوتے ہی حکم دیا کہ طوانہ کو مسمار و ویران کر دیا جائے۔ اور اس کے باشندوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے شہروں کو واپس چلے جائیں اور جہاں سے آئے تھے وہیں جا کر آباد ہوں۔ اس شہر کو ویران کرا کر جو سامان ساتھ لا سکتا تھا اپنے ہمراہ بغداد لے آیا اور جو نہیں لا سکتا تھا اس کو وہیں آگ لگا کر جلا دیا۔ محمد بن قاسم کا خروج محمد بن قاسم بن علی بن عمر بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب مدینہ منورہ کی مسجد میں رہا کر تے اور زہد و عبادت میں اپنے اوقات بسر کرتے تھے۔ ایک خراسانی نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ترغیب دینی شروع کی کہ آپ خلافت کے مستحق ہیں‘ آپ کو لوگوں سے خفیہ طور پر بیعت لینی چاہیئے۔ چنانچہ اس نے ان لوگوں کو جو خراسان سے حج کرنے آتے اور مدینہ منورہ جاتے لا لا کر ان کی خدمت میں پیش کرنا شروع کیا اور انھوں نے محمد بن قاسم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس طرح جب ان لوگوں کی ایک معقول تعداد خراسان میں موجود ہو گئی تو محمد بن قاسم معہ اس خراسانی کے جرجان چلے گئے اور مصلحتاً چند روز روپوش رہے‘ وہاں بیعت کا سلسلہ خوب مخفی طور پر جاری رہا اور رئوسا و امراء آ آ کر ملاقات کرتے رہے‘ بالآخر محمد بن قاسم علوی نے خروج کیا اور خراسان کے گورنر عبداللہ بن طاہر نے اس فساد کے مٹانے کی غرض سے فوج بھیجی‘ نواح طالقان میں متعدد لڑائیاں ہوئیں‘ ہر لڑائی میں محمد بن قاسم علوی کو شکست ہوئی‘ آخر محمد بن قاسم تنہا اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگے۔ مقام نسا میں پہنچ کر گرفتار ہوئے اور عبداللہ بن طاہر کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ عبداللہ بن طاہر نے معتصم باللہ کی خدمت میں بغداد بھیج دیا۔ معتصم باللہ نے مسور الکبیر کے زیر نگرانی قید کر دیا۔ ۱۵ ربیع الاول ۲۱۹ھ کو محمد بن قاسم بغداد پہنچے تھے۔ شوال ۲۱۹ھ کی پہلی شب یعنی شب عیدالفطر کو وہ موقعہ پا کر قید سے نکل بھاگے اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔ گروہ زط کا خاتمہ جمادی الآخر ۳۱۹ھ کو خلیفہ معتصم نے اپنے ایک سپہ سالار عجیف بن عتبہ کو گروہ زط کی جنگ پر مامور کیا۔ عجیف نے سات مہینے تک اس غارت گر گروہ کے ساتھ ہنگامہ کار زار گرم رکھا۔ آخر ان کو مجبور کر دیا کہ انھوں نے خود ماہ ذی الحجہ ۲۱۹ھ میں امان کی درخواست کی اور اپنے آپ کو عجیف کے سپرد کر دیا۔ عجیف ان سب کو جن کی تعداد معہ عورتوں بچوں کے سترہ ہزار تھی لے کر بغداد کی طرف آیا۔ ان سترہ