تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انداز سے جیسے کوئی حملہ آور ہوتا ہے اپنی ڈھال سامنے کر کے اور گھوڑا دوڑا کر حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ڈھال پھینک دی‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تو کس لیے آیا ہے‘ اس نے کہا کہ میں وہ شخص ہوں‘ جس نے آپ کو ہر طرف سے گھیر کر اور روک کر واپس نہ جانے دیا اور اس میدان میں قیام کرنے پر مجبور کیا میں اپنی اس خطا کی تلافی میں اب آپ کی طرف سے کوفیوں کا مقابلہ کروں گا‘ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں‘ حسین رضی اللہ عنہ نے اس کو دعا دی اور بہت خوش ہوئے۔ شمر ذی الجوشن نے عمرو بن سعد سے کہا کہ اب دیر کیوں کر رہے ہو‘ عمرو بن سعد نے فوراً ایک تیر کمان جوڑ کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف پھینکا‘ اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے‘ اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دو آدمی نکلے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پر جا کر دونوں کو قتل کر دیا‘ پھر اسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا‘ دیر تک مبارزت کی لڑائی۱؎ ۱؎ جنگ مبارزت وہ لڑائی ہوتی تھی‘ جس میں دونوں طرف کے لشکروں میں سے ایک ایک بہادر آدمی باہر نکلتا تھا اور ان دونوں کا مقابلہ ہوتا تھا۔ ان میں سے اگر ایک قتل ہو جاتا تو قتل کرنے والا آدمی اپنے مخالف لشکر کو پھر دعوت دیتا کہ تم میں سے اگر کوئی میرا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو وہ باہر نکلے اور میرا مقابلہ کرے۔ اس طرح دو تین بار مقابلہ ہوتی رہی اور اس میں کوفیوں کے زیادہ آدمی مارے گئے‘ پھر اس کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک آدمیوں نے کوفیوں کی صفوں پر حملہ کرنا شروع کیا‘ اس طرح بہت سے آدمیوں کا نقصان ہوا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں نے آل ابی طالب کو اس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا‘ جب تک کہ وہ ایک ایک کر کے سب کے سب نہ مارے گئے‘ آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آل ابی طالب پر سبقت کی‘ ان کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے علی اکبر رضی اللہ عنہ نے دشمنوں پر رستمانہ حملے کئے‘ اور بہت سے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد خودبھی شہید ہو گئے‘ ان کے قتل ہونے کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا‘ اور آپ رونے لگے‘ پھر آپ کے بھائی عبداللہ و محمد و جعفر و عثمان نے دشمنوں پر حملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کو مار کر خود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہو گئے‘ آخر میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ایک نو عمر بیٹے محمد قاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی مارے گئے۔ غرض کہ حسین رضی اللہ عنہ کے لیے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کر مصیبت یہ تھی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کو شہید ہوتے ہوئے‘ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو ان روح فرسانظاروں کاتماشا دیکھتے ہوئے دیکھا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ہمرائیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے‘ تو دوسری طرف وفاداری و جاں نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کر دیں‘ نہ کسی شخص نے کمزوری و بزدلی کا اظہار کیا‘ نہ بیوفائی و تن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سب سے آخر تنہا رہ گئے تھے‘ خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی بوسط معروف بہ زین العابدین جو بیمار اور چھوٹے بچے تھے باقی رہ گئے‘ عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ بھی حکم بھیج دیا تھا کہ سیدنا حسین رضی