تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر کوفیوں کی طرف متوجہ ہو کر اپنی تقریر اس طرح شروع کی: ’’لوگو! تم میں سے ہر ایک شخص جو مجھ سے واقف ہے اور ہر ایک وہ شخص بھی جو مجھ کو نہیں جانتا‘ اچھی طرح آگاہ ہو جائے‘ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نواسا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہوں‘ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا میری ماں اور جعفر طیار رضی اللہ عنہ میرے چچا تھے‘ اس فخر نسبی کے علاوہ مجھ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ اور میرے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو جوانان اہل جنت کا سردار بتایا ہے‘ اگر تم کو میری بات کا یقین نہ ہو تو ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بہت سے صحابیؓ زندہ ہیں تم ان سے میری اس بات کی تصدیق کر سکتے ہو‘ میں نے کبھی وعدہ خلافی نہیں کی‘ میں نے کبھی نماز قضا نہیں کی‘ اور میں نے کسی مومن کو قتل نہیں کیا اور نہ آزار پہنچایا‘ اگر عیسیٰu کا گدھا بھی باقی ہوتا تو تمام عیسائی قیامت تک اس گدھے کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتے‘ تم کیسے مسلمان اورکیسے امتی ہو کہ اپنے رسول کے نواسے کو قتل کرنا چاہتے ہو‘ نہ تم کو اللہ تعالیٰ کا خوف ہے‘ نہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شرم ہے‘ میں نے جب کہ ساری عمر کسی شخص کو بھی قتل نہیں کیا تو ظاہر ہے کہ مجھ پر کسی کا قصاص بھی نہیں‘ پھر تم بتائو کہ تم نے میرے خون کو کس طرح حلال سمجھ لیا ہے‘ میں دنیا کے جھگڑوں سے آزاد ہو کر مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدموں میں پڑا تھا‘ تم نے وہاں بھی مجھ کو نہ رہنے دیا‘ پھر مکہ معظمہ کے اندر بیت اللہ میں مصروف عبادت تھا‘ تم کوفیوں نے مجھ کو وہاں بھی چین نہ لینے دیا‘ اورمیرے پاس مسلسل خطوط بھیجے‘ کہ ہم تم کو امارت کاحق دار سمجھتے‘ اور تمہارے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنا چاہتے ہیں‘ جب تمہارے بلانے کے موافق میں یہاں آیا تو اب تم مجھ سے برگشتہ ہو گئے‘ اب بھی اگر تم میری مدد کرو‘ تو میںصرف یہ چاہتا ہوں کہ مجھ کو قتل نہ کرو اور آزاد چھوڑ دو تاکہ میں مکہ یا مدینہ میں جا کر مصروف عبادت ہو جائوں اور اللہ تعالیٰ خود اس جہان میں فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ظالم تھا‘‘۔ اس تقریر کو سن کر سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا‘ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے تم پر حجت پوری کر دی‘ اور تم کوئی عذر پیش نہیں کر سکتے۔ پھر آپ نے ایک ایک کا نام لے کر آواز دی کہ ’’اے شبت بن ربیعی‘ اے حجاج بن الحسن‘ اے قیس بن الاشعت‘ اے حر بن یزید تمیمی‘ اے فلاں و فلاں کیا تم نے مجھ کو خطوط نہیں لکھے تھے‘ اور مجھ کو باصرار یہاں نہیں بلوایا تھا‘ اب جب کہ میں یہاں آیا ہوں‘ تو تم مجھ کو قتل کرنے پر آمادہ ہو۔ یہ سن کر ان سب لوگوں نے کہا کہ ہم نے آپ کو کوئی خط نہیں لکھا اور نہ آپ کو بلایا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہ خطوط نکالے اور الگ الگ پڑھ کر سنائے کہ یہ تمہارے خطوط ہیں انہوں نے کہا کہ خواہ ہم نے یہ خطوط بھیجے ہیں یا نہیں بھیجے‘ مگر اب ہم علی الاعلان آپ سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں‘ یہ سن کر حسین رضی اللہ عنہ اونٹ سے اترے اور گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کے لیے مستعد ہو گئے۔ کوفی لشکر سے اول ایک شخص میدان میں مقابلہ کی غرض سے نکلا‘ مگر اس کا گھوڑا ایسا بدکا کہ وہ گھوڑے سے گرا اور مر گیا‘ اس کیفیت کو دیکھ کر حربن یزید تمیمی اس