تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اللہ عنہ کا سر مبارک کاٹ کر ان کی لاش گھوڑوں سے یہاں تک پامال کرائی جائے کہ ہر ایک عضو ٹوٹ جائے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری و جواں مردی کے ساتھ دشمنوں پر حملے کئے ہیں ان حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمرائیوں میں کوئی نہ تھا‘ مگر عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر و جری انسان نہیں دیکھا‘ اس غم کی داستان اورروح کو مضمحل کر دینے والی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے جسم پر پینتالیس ہوتا اور پھر دونوں لشکروں میں کھلی جنگ شروع ہوتی۔ زخم تیر کے تھے‘ مگر آپ برابر دشمنوں کا مقابلہ کئے جا رہے تھے‘ ایک دوسری روایت کے موافق ۳۳ زخم نیزے کے اور ۴۳ زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم اس کے علاوہ تھے۔ شروع میں آپ گھوڑے پر سوار ہوکر حملہ آور ہوتے رہے تھے‘ لیکن جب گھوڑا مارا گیا‘ تو پھر پیدل لڑنے لگے‘ دشمنوں میں کوئی شخص یہ نہیں چاہتا تھا‘ کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں‘ بلکہ ہر شخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا تھا‘ آخر شمر ذی الجوشن نے چھ شخصوں کو ہمراہ لے کر آپ پر حملہ کیا‘ ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا بایاں ہاتھ کٹ کر الگ گر پڑا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس پر جوابی وار کرنا چاہا لیکن آپ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر قبیح و مجروح ہو چکا تھا کہ تلوار نہ اٹھا سکے‘ پیچھے سے سنان بن انس نخعی نے آپ کے نیزہ مارا جو شکم پار ہو گیا‘ آپ نیزہ کا یہ زخم کھا کر گئے‘ اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ کی روح بھی کھینچ گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اس کے بعد شمر نے یا شمر کے حکم سے دوسرے شخص نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر جسم سے جدا کیا اورعبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کئے گئے‘ ان سے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسد مبارک کو خوب کچلوایا‘ پھر خیمہ کو لوٹا‘ آپ کے اہل بیت کو گرفتار کیا‘ زین العابدین جو لڑکے تھے‘ شمر ذی الجوشن کی نظر پڑی تو ان کو اس نے قتل کرنا چاہا‘ مگر عمرو بن سعد نے اس کو اس حرکت سے باز رکھا۔ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اور آپ کے اہل بیت کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھیجے گئے‘ کوفہ میں ان کو تشہیر کیا گیا‘ ابن زیاد نے دربار کیا اور ایک طشت میں رکھ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر اس کے سامنے پیش ہوا‘ اس نے اس سر کو دیکھ کر گستاخانہ کلمات کہے۔ پھر تیسرے روز شمر ذی الجوشن کو ایک دستہ فوج دے کر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سر مبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا۔ علی بن حسین یعنی سیدنا زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس نے دیکھا تو وہ سر دربار رو پڑا اور عبیداللہ بن زیاد کو گالیاں دے کر کہنے لگا کہ اس پسر سمیہ کو میں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینا‘ پھر شمر ذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ میں تمہاری اطاعت و فرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا‘