تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ سن کر کہا کہ ہم ہر گز ہر گز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے‘ ہم سب آپ کے اوپر قربان ہو جائیں گے‘ اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے آپ کو آزار نہ پہنچنے دیں گے۔ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طراح بن عدی جو اس نواح میں آیا ہوا تھا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ابن سعد کے لشکروں کا حال سن کر امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں‘ میں آپ کو ایک ایسے راستے سے لے چلوں گا کہ کسی کو مطلق اطلاع نہ ہو سکے گی اور آپ کو قبیلہ بنی طے میں لے جا کر پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلے کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا‘ آپ ان پانچ ہزار سے جو چاہیں کام لیں‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا کہ مجھ کو تنہا چھوڑ کر تم سب چلے جائو‘ انہوں نے اس بات کو گوارا نہیں کیا‘ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کو چھوڑ کر تنہا اپنی جان بچا کر نکل جائوں‘ ان کے ہمرائیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو تو وہ کچھ کہیں گے نہیں‘ جیسا کہ آپ ابھی فرما چکے ہیں‘ وہ تو تنہا آپ کے دشمن ہیں‘ لہٰذا آپ اپنی جان بچانے کے لیے نکل جائیں‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں کے بغیر کوئی چیز بھی گوارا نہیں ہوسکتی‘ میں آپ لوگوں کی معیت کے اپنی جان بچانے کے لیے ہر گز نہ جائوں گا‘ چنانچہ اس شخص کو شکریہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ جب صبح ہوئی تو شمر ذی الجوشن اور عمرو بن سعد صفوف لشکر کو آراستہ کر کے میدان میں آئے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ہمرائیوں کو مناسب ہدایات دے کر متعین کیا‘ شمر ذی الجوشن نے عبیداللہ‘ جعفر‘ عثمان‘ عباس کو میدان میں بلوا کر کہا کہ تم کو امیر زیاد نے امان دے دی ہے‘ انہوں نے کہا کہ ابن زیاد کی امان سے اللہ کی امان بہتر ہے‘ شمر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی ۱۰ محرم ۶۱ھ کی صبح کو شروع ہوئی ہے‘ بہتر آدمی موجود تھے‘ بعض روایات کے موافق ایک سو چالیس اور بعض کے موافق دوسو چالیس تھے‘ بہرحال اگر بڑی سے بڑی تعداد یعنی دو سو چالیس بھی تسلیم کر لیں تو دشمنوں کی ہزارہا جرار فوج کے مقابلے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمرائیوں کومناسب مقامات پر کھڑا کر کے اور ضروری وصیتیں فرما کر اونٹ پر سوارہوئے‘ اور کوفی لشکر کی صفوف کے سامنے تنہا گئے‘ ان لوگوں کو بلند آواز سے مخاطب ہو کر کے ایک تقریر شروع کی اور فرمایا کہ۔ اے کوفیو! میں خوب جانتا ہوں کہ یہ تقریر کوئی نتیجہ میرے لیے اس وقت پیدا نہ کرے گی اور تم کو جو کچھ کرنا ہے تم اس سے باز نہ آئو گے‘ لیکن میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی حجت تم پر پوری ہو جائے‘ اور میرا عذر بھی تم پر ظاہر ہو جائے۔ ابھی اسی قدر الفاظ کہنے پائے تھے‘ کہ آپ کے خیموں سے عورتوں اور بچوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں‘ ان آوازوں کے سننے پر آپ کو سخت ملال ہوا اور سلسلہ کلام کو روک کر اور لاحول پڑھ کر آپ نے کہا۔ کہ عبداللہ بن عباس مجھ سے سچ کہتے تھے کہ عورتوں اور بچوں کو ہمراہ نہ لے جائو‘ مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے ان کے مشورے پر عمل نہ کیا‘ پھر لوٹ کر اپنے بھائی اور بیٹوں کو پکار کر کہا کہ ان عورتوں کو رونے سے منع کرو‘ اور کہو کہ اس وقت خاموش رہو‘ کل خوب دل بھر کر رو لینا‘ انہوں نے عورتوں کو سمجھایا اور وہ آوازیں بند ہوئیں‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے