تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’میں اس وقت تین باتیں پیش کرتا ہوں‘ تم ان تین میں سے جس کو چاہو میرے لیے منظور کر لو۔ اول تو یہ کہ جس طرف سے میں آیا ہوں اسی طرف مجھ کو واپس جانے دو‘ تاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ کر عبادت الٰہی میں مصروف رہوں۔ دوم یہ کہ مجھ کو کسی سرحد کی طرف نکل جانے دو‘ کہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہو جائوں۔ سوم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جائو‘ اور مجھ کو سیدھا یزید کے پاس دمشق کی جانب جانے دو‘ میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے تم بھی چل سکتے ہو‘ میں یزید کے پاس جا کر براہ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کر لوں گا‘ جیسا کہ میرے بڑے بھائی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے طے کیا تھا‘‘۔ عمرو بن سعد یہ سن کر بہت خوش ہوا‘ اور کہا کہ میں بطور خود کوئی پختہ جو اب آپ کو اس وقت ان باتوں کے متعلق نہیں دے سکتا‘ ابھی عبیداللہ بن زیاد کو اطلاع دیتا ہوں‘ یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کو منظور کر لے گا‘ عمرو بن سعد بھی اسی میدان میں خیمہ زن ہو گیا‘ اور ابن زیاد کو یہ تمام کیفیت لکھ کر بھیجی۔ ۲ محرم ۶۱ھ کو کربلا میں عمرو بن سعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے پہنچنے سے اگلے دن جا کر مقیم ہوا تھا‘ اور اسی روز یہ گفتگو ہوئی تھی‘ عبیداللہ بن زیاد عمرو بن سعد کا خط پڑھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے کہا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے وہ بات کی ہے‘ جس سے فتنہ کا دروازہ بالکل بند ہو جائے گا اور وہ یزید کے پاس جا کر بیعت کر لیں گے تو پھر کوئی خطرہ باقی ہی نہ رہے گا۔ لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا اس نے کہا اے امیر اس وقت تجھ کو موقع حاصل ہے کہ تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بلا تکلف قتل کر دے‘ تجھ پر کوئی الزام عائد نہ ہو گا۔ لیکن اگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے‘ تو پھر ان کے مقابلہ میں تیری کوئی عزت و قدر باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کر لیں گے‘ یہ سن کر ابن زیاد نے عمرو بن سعد کو جواب میں لکھا کہ: ’’یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہو سکتیں‘ ہاں صرف ایک صورت قابل پذیرائی ہے‘ وہ یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کر دیں اور یزید کی بیعت اول نیابتاً میرے ہاتھ پرکریں‘ پھر میں ان کو یزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا‘‘۔ اس جواب کے آنے پر عمرو بن سعد نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی اور کہا کہ میں مجبور ہوں‘ ابن زیاد خلافت یزید کی بیعت اول اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اورکسی دوسری بات کو منظور نہیں کرتا‘ امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تو مر جانا بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کروں۔ ابن سعد اس کوشش میں مصروف تھا کہ کسی طرح کشت و خون نہ ہو‘ یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ہی ابن زیاد کی شرط مان لیں‘ یا ابن زیاد سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی منشاء کے موافق ان کو جانے کی اجازت دے دے۔ اس خط و کتابت اور انکار واصرار میں ایک ہفتہ تک سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ابن سعد دونوں اپنے اپنے ہمرائیوں کے ساتھ کربلا کے میدان میں خیمہ زن رہے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی ابن سعد کے لشکریوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھتے‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ صفوں کو