تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے فرزوق سے کوفہ اور کوفیوں کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ اہل کوفہ کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں‘ لیکن ان کی تلواریں آپ کی حمایت میں بلند نہیں ہو سکتیں۔ کچھ دور آگے بڑھے تھے‘ کہ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کا خط جو انہوں نے مدینہ سے اپنے بیٹوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا تھا آپ کو ملا‘ عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ کوفہ کے ارادہ سے باز رہیے‘ اور مدینہ میں آجائیے‘ مجھ کو اندیشہ ہے کہ آپ قتل نہ ہو جائیں‘ اللہ کے لیے آپ اس معاملہ میں جلدی نہ کریں‘ ساتھ ہی مدینہ کے والی کا خط بھی ان ہی قاصدوں نے دیا‘ جس میں لکھا تھا کہ آپ مدینہ میں آکر رہنا چاہیں تو آپ کو امان ہے‘ مگر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی سے قطعاً انکار کیا‘ اور محمد اور عون کو بھی ہمراہ لے لیا۔ آپ نے اپنے دلیل راہ سے جو بصرہ کا ایک شخص تھا کہا کہ جس قدر جلد ممکن ہو ہم کو کوفہ میں پہنچائو‘ تاکہ ہم عبیداللہ بن زیاد کے پہنچنے سے پہلے کوفہ میں داخل ہو جائیں وہاں لوگ ہمارے سخت منتظر ہوں گے۔ اتفاقاً اسی روز عبیداللہ بن زیاد کے پاس یزید کا خط پہنچا تھا‘ کہ اپنی حفاظت کرو اور چوں کہ سیدنا حسین مکہ سے روانہ ہو چکے ہوں گے‘ لہٰذا ہر ایک راستے پر فوجیں متعین کر دو‘ کہ ان کو کوفہ تک نہ پہنچنے دیا جائے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے دل میں یہ خیال کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر ہر روز لوگ بیعت کرتے ہوں گے‘ اور جماعت اب بہت زیادہ ہو چکی ہو گی‘ لیکن کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد ان کی گرفتاری یا قتل کے لیے فوجیں نامزد کر رہا تھا۔ چند منزلیں اور طے کرنے کے بعد عبداللہ بن مطیع سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ارادے سے واقف ہو کر نہایت اصرار کے ساتھ روکا اور مکہ کی طرف واپس چلنے کے لیے قسمیں دلائیں‘ پھر ان کو سمجھایا کہ آپ عراقیوں کے فریب میں نہ آئیں‘ اگر آپ بنو امیہ سے خلافت چھیننے کی کوشش کریں گے تو وہ آپ کو ضرور قتل کر دیں گے اور ہر ایک ہاشمی‘ ہر ایک عرب اور ہر ایک مسلمان کے لیے قتل پر دلیر ہو جائیں گے‘ آپ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال کر اسلام‘ عرب اور قریش کی حرمت کو نہ مٹائیں‘ مگر امام حسین رضی اللہ عنہ پر ان کی بات کا کوئی اثر نہ ہوااور وہ بدستور کوفہ کی جانب گرم سفر رہے۔ مقام حاجر سے آپ نے قیس بن مسہر کے ہاتھ اہل کوفہ کے پاس ایک خط بھیجا‘ کہ ہم قریب پہنچ گئے ہیں ہمارے منتظر رہو‘ قیس قادسیہ میں پہنچے تھے‘ کہ لشکر ابن زیاد کے ہاتھ میں گرفتار ہو گئے‘ ابن زیاد کے روبرو معہ خط پیش کئے گئے‘ اس نے قصر امارت کی چھت پر چڑھا کر اوپر سے گرا دیا‘ اور قیس گرتے ہی فوت ہو گئے‘ پھر اگلی منزل سے اپنے رضائی بھائی عبداللہ بن یقطر کو اسی طرح خط دے کر بھیجا‘ وہ بھی اسی طرح گرفتار ہو کر قصر امارت سے گرا کر قتل کئے گئے۔ یہ قافلہ جب مقام ثعلبیہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں قتل کر دیئے گئے اور اب کوئی متنفس کوفہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا حمایتی نہیں ہے‘ اس خبر کے سنتے ہی تمام قافلہ پر مایوسی چھا گئی‘ اور واپسی کا ارادہ ہوا‘ کیوں کہ کوفہ کی طرف جانے میں قوی احتمال تھا کہ جو سلوک مسلم کے ساتھ ہوا ہے‘ وہی اس قافلے کے ساتھ ہو گا‘ یہ سن کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے بیٹوں نے کہا