تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عامل کو نکال دینے کی جرأت بھی نہیں‘ تو یقینا کوفہ کا عامل ان کو خوف دلا کر اور لالچ دے کر اپنے حسب منشاء جب چاہے گا استعمال کر سکے گا‘ اور ہو سکتا ہے کہ یہی لوگ جو آپ کو بلا رہے ہیں آپ سے لڑنے کے لیے یزید کی طرف سے میدان میں آئیں‘ ان حالات پر غور کرنے سے آپ کی جان کا خطرہ نظر آتا ہے‘ اگر عورتیں اوربچے بھی آپکے ساتھ ہوئے‘ توجس طرح عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے روبرو قتل کئے گئے اسی طرح آپ کے اہل و عیال کو بھی آپ کا قتل ہونا دیکھنا پڑے گا اور دشمنوں کے ہاتھ میں گرفتار ہو کر لونڈی غلام بننے کا اندیشہ رہے گا۔ جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اس بات کو بھی نہ مانا‘ تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو امارت و خلافت کا ایسا ہی شوق ہے‘ تو آپ اول یمن کے ملک میں جائیے‘ وہاں آپ کے بہت سے ہمدرد بھی موجود ہیں۔ وہاں پہاڑی سلسلہ بھی حفاظت کے لیے خوب کام آسکتا ہے۔ حجاز کی حکومت بھی اگر آپ چاہیں تو بڑی آسانی سے آپ کو مل سکتی ہے۔ آخر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما مجبور ہو گئے اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے کسی مشورہ کو بھی نہ مانا۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما آئے اور انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہر گز کوفہ کا عزم نہ کریں‘ آپ کی روانگی کے عزم کا حال جب سے مکہ میں مشہور ہوا ہے‘ میں بعض شخصوں سے یہ بھی سن رہا ہوں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما اب حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے چلے جانے سے بہت خوش ہو گا کیوں کہ مکہ میں اس کا کوئی رقیب باقی نہ رہے گا۔ لہٰذا میں ان بدگمان لوگوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے آپ سے نہایت خلوص کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ مکہ کی حکومت قبول فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں تاکہ میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کروں اور آپ کے حکم کی تعمیل میں شمشیرزنی کے لیے میدان میں نکلوں‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اب اطلاع دے چکا اور روانگی کا عزم مصمم کر چکا ہوں لہٰذا کسی طرح رک نہیں سکتا۔ آخر ۳ ماہ ذی الحجہ ۶۰ھ بروز دو شنبہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے مع اہل خاندان روانہ ہوئے‘ اسی تاریخ یعنی بروز دو شنبہ بتاریخ ۳ ذی الحجہ کوفہ میں مسلم بن عقیل قتل کئے گئے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ جب مکہ سے روانہ ہونے لگے تو عمرو بن سعد بن العاص رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے اہل مکہ نے آکر ان کو روکنا چاہا اورکہا کہ اگر آپ ویسے نہیں مانتے تو ہم آپ کو زبردستی روکیں گے اور آپ کا مقابلہ کریں گے‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو کچھ تم سے ہو سکے کر گذرو‘ اور لڑائی کا ارمان بھی نکال لو‘ یہ سن کر سب لوگ ان کے سامنے سے ہٹ گئے‘ اور وہ روانہ ہوئے‘ رخصت کرتے وقت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ میں اس وقت تمہارے اونٹ کے آگے لیٹ جاتا‘ کہ وہ مجھ کو بغیر کچلے ہوئے آگے نہ بڑھ سکے‘ لیکن میں جانتا ہوں کہ تم پھر بھی نہ رکو گے‘ اور عزیم کوفہ سے باز نہ رہو گے۔ آخر آپ مکہ سے روانہ ہوئے‘ مقام تیعم میں ایک قافلہ ملا جو یزید کے پاس عامل یمن کی طرف سے تحائف لے جا رہا تھا‘ آپ نے اس قافلہ کو گرفتار کر لیا‘ اور کچھ سامان اس قافلہ سے لے کر آگے روانہ ہوئے‘ مکہ اور کوفہ کے درمیان مقام صفاح میں عربی کے مشہور شاعر فرزق سے ملاقات ہوئی جو کوفہ سے آرہا تھا‘ فرزوق جب کوفہ سے چلا تھا‘ تو اس وقت تک عبیداللہ بن زیاد کوفہ میں داخل نہ ہوا تھا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ