تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گیا‘ اور مکہ میں یہ خبر مشہور ہوئی‘ کہ حسین بن علی رضی اللہ عنھما کوفہ کو جانے والے ہیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و ہمدردی رکھنے والوں نے آ آکر ان کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا اور سمجھایا کہ آپ کا کوفہ کی طرف روانہ ہونا خطرہ سے خالی نہیں‘ اول عبدالرحمن بن حارث نے آکر عرض کیا کہ آپ کوفہ کا عزم ترک کر دیں‘ کیوں کہ وہاں عبیداللہ بن زیاد حاکم عراق موجود ہے‘ کوفہ والے لالچی لوگ ہیں‘ بہت ممکن ہے کہ جن لوگوں نے بلایا ہے وہی آپ کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں نکلیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے آکر کہا کہ تم بیعت لینے اور امارت حاصل کرنے کے لیے مکہ سے باہرنہ جائو‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدائے تعالیٰ نے دنیا و آخرت میں سے ایک کے اختیار کرنے کی آزادی دی تھی‘ آپ نے آخرت کو اختیار کیا‘ تم بھی خاندان نبوت سے ہو‘ دنیا کی طلب نہ کرو‘ اپنے دامن کو دنیا کی آلائش سے آلودہ نہ ہونے دو۔ یہ نصیحت کر کے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما رو پڑے حسین رضی اللہ عنہ بھی رو پڑے مگر انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی رائے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ مجبور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما رخصت ہو کر چلے گئے۔ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما آئے اور انہوں نے کہا کہ مکہ کو نہ چھوڑو‘ اور خانہ اللہ تعالیٰ سے دوری اختیار نہ کرو‘ تمہارے والد محترم نے مکہ اور مدینہ کو چھوڑ کر کوفہ کو ترجیح دی تھی‘ مگر تم نے دیکھا کہ ان کے ساتھ کوفہ والوں نے کس قسم کا سلوک کیا‘ یہاں تک کہ ان کو شہید ہی کر کے چھوڑا تمہارے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کو بھی کوفیوں نے لوٹا‘ قتل کرنا چاہا‘ آخر زہر دے کر مار ہی ڈالا‘ اب تم کو ان پر ہر گز اعتبار نہ کرنا چاہیئے‘ نہ ان کی بیعت اور قسم کا کوئی بھروسہ ہے‘ نہ ان کے خطوط اور پیغامات قابل اعتماد ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ باتیں سن کر سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ جو کچھ فرماتے ہیں سب درست ہے‘ لیکن مسلم بن عقیل کا خط آگیا ہے‘ بارہ ہزار آدمی اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں اور اس سے پہلے شرفاء کوفہ کے ڈیڑھ سو خطوط میرے پاس آچکے ہیں‘ اب کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے‘ میرا وہاں جانا ہی مناسب ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے یہ جواب سن کر کہا‘ کہ اچھا کم از کم اس ذی الحجہ کے مہینے کو ختم اور نئے سال کو شروع ہو لینے دو‘ پھر عزم سفر کرنا‘ اب حج کے دن آگئے ہیں سارے جہان کے لوگ دور دور سے مکہ میں آرہے ہیں اور تم مکہ کو چھوڑ کر باہر جا رہے ہو‘ محض اس لیے کہ دنیا اور دنیاداروں پر تم کو حکومت حاصل ہو‘ لوگوں کو حج سے فارغ ہو کر واپس ہو لینے دو‘ پھراگر ضروری سمجھتے ہو تو روانہ ہو جائو۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ معاملہ ایسا ہے کہ اب میں تاخیر نہیں کر سکتا‘ مجھ کو فوراً روانہ ہی ہو جانا چاہیئے۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے کہا کہ اچھا اگر تم میرا کہنا نہیں مانتے ہو تو کم از کم عورتوں اور بچوں کو تو ساتھ نہ لے جائو‘ کیوں کہ کوفہ والوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے‘ بارہ ہزار شخص جب کہ تمہاری خلافت کے لیے بیعت کر چکے ہیں تو ان کا فرض تھا کہ وہ اول یزید کے عامل کو کوفہ سے نکال دیتے‘ خزانہ پر قبضہ کرتے اور پھر آپ کو بلاتے۔ لیکن موجودہ صورت میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یزید کے عامل یعنی کوفہ کے عامل کے خلاف وہ کچھ نہیں کر سکتے‘ جبکہ ان کے پاس خزانہ بھی نہیں اور