تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تھا‘ اسی وقت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی ‘ کہ ابن زیاد مع لشکر آگیا ہے‘ وہ جس مکان میں مقیم تھے اور لوگوں کو عام طور پر اس کا علم تھا‘ اس کو چھوڑ دیا اور ہانی بن عروہ کے مکان میں جا کر پناہ گزین ہوئے‘ اس وقت تک مسلم کے ہاتھ پر بیعت ہونے والوں کی تعداد کوفہ میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ عبیداللہ بن زیاد نے اگلے دن صبح کو مجمع عام کے روبرو تقریر کی اور یزید کا حکم نامہ جو اس کے پاس بصرہ میں پہنچا تھا سنایا‘ عبیداللہ نے کہا کہ: ’’تم لوگ میرے باپ زیاد بن ابی سفیان کو خوب جانتے ہو اور تم کو معلوم ہے کہ وہ کس قسم کی سیاست برتنے کے عادی تھے‘ مجھ میں اپنے باپ کی تمام عادات موجود ہیں‘ تم لوگ مجھ سے بھی خوب واقف ہو اور میں بھی تمہارے ایک ایک شخص کا نام جانتا اور ہر ایک کا گھر اور محل پہچانتا ہوں‘ مجھ سے تم کوئی چیز چھپا نہیں سکتے‘ میں یہ نہیں چاہتا کہ کوفہ میں خون کے دریا بہائوں اور تم کو قتل کروں‘ مجھ کو معلوم ہے کہ تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے لیے مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے‘ میں تم سب کو امان دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اس بیعت سے رجوع کر لو‘ اور جوشخص بغاوت پر آمادہ ہے اس کو کوئی شخص اپنے مکان میں پناہ نہ دے‘ ورنہ ہر ایک پناہ دہندہ کو اسی کے دروازہ پر قتل کیا جائے گا‘‘۔ اس تقریر کے بعد عبیداللہ نے مسلم بن عقیل کا پتہ دریافت کیا کہ وہ کس جگہ ہیں‘ کسی نے پتہ نہ بتایا‘ آخر عبیداللہ کو اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلوم ہوا کہ وہ ہانی بن عروہ کے مکان میں چھپے ہوئے ہیں‘ عبیداللہ نے معقل نامی ایک شخص کو جو تمیم کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا اور اس کو کوفہ میں کوئی نہیں جانتا تھا‘ بلا کر تنہائی میں تین ہزار درہم کی ایک تھیلی دی اور کہا کہ فلاں محلہ میں ہانی بن عروہ کے مکان پر جائو‘ جب ہانی بن عروہ سے ملاقات ہو جائے‘ تو اس سے کہو کہ مجھ کو آپ سے تنہائی میں کچھ کہنا ہے‘ جب تنہائی میں پہنچو تو ہانی سے کہو کہ مجھ کو بصرہ کے فلاں فلاں شخصوں نے بھیجا ہے‘ اور تین ہزار درہم دیئے ہیں کہ کوفہ میں جا کر مسلم بن عقیل کے پاس پہنچا دو اور ان سے کہو کہ ہمارے پاس مکہ سے حسین رضی اللہ عنہ کا خط آیا ہے‘ انہوں نے ہم کو لکھا ہے کہ تم فلاں تاریخ کو کوفہ پہنچ جائو‘ اسی تاریخ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی کوفہ پہنچیں گے۔ آپ بالکل مطمئن رہیں‘ ہم سب تاریخ مقررہ کو کوفہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ داخل ہوں گے‘ یہ تین ہزار درہم اپنی ضروریات میں صرف کرو اور ہماری طرف سے بطور ہدیہ قبول کرو‘ لہٰذا آپ مجھ کو مسلم بن عقیل کے پاس پہنچا دیجئے‘ تاکہ میں تمام پیغامات اور یہ روپیہ ان کی خدمت میں پہنچا دوں اور فوراً کوفہ سے چلا جائوں کیوں کہ عبیداللہ بن زیاد آگیا ہے اور وہ مجھ کو پہچانتا ہے‘ ایسا نہ ہو کہ میں گرفتار ہو جائوں۔ معقل تین ہزار درہم کی تھیلی لے کر ہانی کے پاس پہنچا‘ وہ مکان کے دروازے پر بیٹھا تھا‘ معقل کی باتیں سن کر فوراً مسلم بن عقیل کے پاس لے گیا …مسلم بن عقیل نے خوش ہو کر وہ تھیلی لے لی اور پیغامات سن کر معقل کو رخصت کر دیا‘ معقل وہاں سے چل کر سیدھا عبیداللہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں تھیلی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو دے آیا ہوں اور خود ان سے باتیں کی ہیں‘ وہ ہانی کے مکان میں موجود ہیں‘ عبیداللہ بن زیاد نے ہانی بن عروہ کو بلا کر پوچھا‘ کہ مسلم کہاں ہیں‘ ہانی نے لا علمی ظاہر کی‘ عبیداللہ نے معقل کو بلوا کر سب کے سامنے اس کا بیان سنوایا‘ ہانی شرمندہ ہو کر کہنے لگا کہ ہاں