تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو وصیت کی تھی‘ کہ تم کو کوفہ والوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیئے۔ ادھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یزید کو بتا گئے تھے کہ کوفہ والے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ضرور خروج پر آمادہ کریں گے اگر ایسی صورت پیش آئے اور تم سیدنا حسین پر قابو پائو توان کے ساتھ رعایت کا برتائو کرنا‘ چونکہ مکہ کی حکومت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آگئی تھی‘ لہٰذا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی توجہ اب کوفہ کی طرف زیادہ مبذول رہتی تھی۔ کوفہ میں جب وہاں کے حاکم نعمان بن بشیر کے پاس یزید کا خط پہنچا اور عام طور پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کی خبر مشہور ہوئی تو شیعان بنی امیہ نے فوراً نعمان بن بشیر کے ہاتھ پر خلافت یزید کی بیعت کی‘ لیکن شیعان علی اور شیعان حسین رضی اللہ عنہ نے جو پہلے ہی سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں بلانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بیعت میں تامل کیا‘ اور سلیمان بن صرد کے مکان میں جمع ہوئے‘ سب نے اس قراردار پر اتفاق کیا کہ یزید کو خلیفہ تسلیم نہ کیا جائے‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں بلایا جائے‘ ابھی یہ خفیہ مشورہ ہو ہی رہے تھے کہ انہوں نے سنا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے مکہ چلے گئے ہیں مگر وہاں اہل مکہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو نہیں بلکہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اپنا حاکم بنا لیا ہے‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ مکے میں ہی موجود ہیں‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن زبیر کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی‘ چنانچہ انہوں نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط روانہ کیا کہ: ’’ہم آپ کے اور آپ کے والد بزرگوار کے شیدائی اور بنی امیہ کے دشمن ہیں‘ ہم نے آپ کے والد ماجد کی حمایت میں طلحہ رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ سے جنگ کی‘ ہم نے میدان صفین میں ہنگامہ کارزار گرم کیا اور شامیوں کے دانت کھٹے کر دئیے‘ ہم اب آپ کے ساتھ مل کر بھی جنگ کرنے کو تیار ہیں‘ آپ فوراً اس خط کو دیکھتے ہی کوفہ کی طرف روانہ ہو جائیے۔ یہاں آئیے تاکہ ہم نعمان بن بشیر کو قتل کر کے کوفہ آپ کے سپرد کر دیں‘ کوفہ و عراق میں ایک لاکھ سپاہ موجود ہے‘ وہ سب کے سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تیار ہیں‘ ہم آپ کو حق دار خلافت یقین کرتے ہیں‘ یزید تو کسی طرح بھی آپ کے مقابلے میں خلافت کااستحقاق نہیں رکھتا‘ یہ موقع ہے‘ دیر مطلق نہ کیجئے‘ ہم یزید کو قتل کر کے آپ کو تمام عالم اسلام کا تنہا خلیفہ بنانا چاہتے ہیں‘ ہمارے سربرآوردہ لوگوں نے یزید کے عامل یعنی نعمان بن بشیر کے پیچھے جمعہ کی نماز پڑھنی بھی ترک کر دی ہے‘ کیوں کہ ہم امامت کا مستحق آپ کے نائبین کو سمجھتے ہیں‘‘۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس مکہ میں اسی مضمون کے خطوط مسلسل پہنچنے شروع ہوئے تو انہوں نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو بلایا (یہ مسلم ان ہی عقیل بن ابی طالب کے بیٹے ہیں جو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مصاحب خاص اور مشیر بااخلاص تھے) اور فرمایا کہ تم میرے نائب بن کر کوفہ میں جائو ‘ پوشیدہ طور پر جائو‘ پوشیدہ طور پر کوفہ میں رہو اور میرے نام پر لوگوں سے پوشیدہ طور پر بیعت لو‘ جو لوگ تمہارے ہاتھ پر بیعت کریں ان کی تعداد اور خاص خاص کے نام خط میں لکھ کر میرے پاس روانہ کر دو‘ تم اپنے آپ کو پنہاں رکھنے کی بہت کوشش کرو‘ اور ان لوگوں کو جو بیعت میں داخل ہوں سمجھائو‘ کہ جب تک میں وہاں نہ پہنچوں ہر گز لڑائی نہ لڑیں۔