تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں حارث بن حرکو یزید نے عامل نبا کر بھیج دیا تھا‘ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حسین بن علی رضی اللہ عنھما دونوں مکہ میں ساتھ ہی داخل ہوئے‘ ان کو دیکھتے ہی عبداللہ بن صفوان بن امیہ نے جو شرفاء مکہ میں تھے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ پھر اس کے بعد مکہ کے دو ہزار آدمیوں نے جو شرفاء و عمائدین شمار ہوتے تھے‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حارث کو گرفتار کر کے قید کر دیا اور مکہ کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی مکہ میں موجود تھے‘ نہ انہوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ نہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ یا ان کے اہل خاندان سے بیعت لینا چاہی‘ اسی طرح جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مکہ میں تشریف لے آئے‘ تو ان سے بھی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیعت کے لیے کوئی خواہش ظاہر نہیں کی‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنا زیادہ وقت خانہ کعبہ میں مصروف عبادت رہ کر بسر کرتے تھے‘ ان چند حضرات کے سوا تمام اہل مکہ ان کے ہاتھ پر بیعت ہو گئے تھے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اکثر ملتے‘ اور مشورہ کرتے رہتے تھے‘ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خلافت کی بیعت نہیں لی تھی بلکہ اس بیعت کامنشاء صرف یہ تھا کہ یزید کو خلیفہ تسلیم نہ کیا جائے اور جب تک خلیفہ عالم اسلام کے لیے متفقہ طور پر متعین نہ ہو ‘ اس وقت تک امن و امان اورانتظام قائم رکھنے کے لیے عبداللہ بن زبیر مکہ کے حاکم تسلیم کئے جائیں۔ لیکن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو یہ بات کچھ گراں گذرتی تھی‘ کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو حکومت مکہ کیوں حاصل ہے‘ اس لیے کہ وہ اور ان کے اہل خاندان عبداللہ بن زبیر کے پیچھے نماز نہ پڑھتے اور شریک جماعت نہ ہوتے۔ ادھر عبداللہ بن زبیر اور حسین بن علی رضی اللہ عنھما کے مدینہ سے چل جانے اور اہل مدینہ کے بیعت کر لینے کی کیفیت مروان نے یزید کے پاس لکھ کر بھیجی‘ یزید نے فوراً ولید بن عتبہ کو معزول کر کے ان کی جگہ عمرو بن سعید بن عاص کو مدینہ کا حاکم مقرر کر کے بھیجا‘ عمرو بن سعید نے مدینہ کی حکومت آکر سنبھالی اور ولید بن عتبہ مدینہ سے یزید کے پاس چلے گئے۔ ادھر مکہ پر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قابض ہو جانے اور حارث کے قید ہونے کی کیفیت حارث بن خالد نے جو مکہ میں موجود تھے‘ اور اپنے گھر سے باہر نہ نکلتے تھے‘ لکھ کر یزید کے پاس روانہ کی‘ مکہ کی حالت سے واقف ہو کر یزید نے عمرو بن سعید کو لکھا کہ مکہ جا کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرو اور پابہ زنجیر میرے پاس روانہ کر دو‘ عمرو نے ایک زبردست فوج مکہ کی جانب بھیجی‘ وہاں لڑائی ہوئی‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو فتح ہوئی‘ اور مدینہ سے آئی ہوئی فوج کا سپہ سالار گرفتار ہو کر قید ہوا۔ کوفہ والے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کے زمانے میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ خط و کتابت رکھتے‘ اور بار بار لکھتے رہتے تھے کہ آپ کوفہ میں چلے آئیں‘ ہم آپ کہ ہاتھ پر بیعت کر لیں گے‘ کوفہ والوں کی ان خفیہ کاروائیوں اور ریشہ دوانیوں سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی واقف تھے‘ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کوفہ والوں کی عادات کا نہایت صحیح اندازہ رکھتے تھے‘ اسی لیے انہوں نے فوت ہوتے وقت