تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلم نہایت احتیاط کے ساتھ کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو اطلاع نہ ہو سکے مکہ سے روانہ ہوئے‘ راستہ میں انہوں نے کچھ سوچا‘ اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھ کو اس کا انجام کچھ اچھا معلوم نہیں ہوتا‘ آپ مجھ کو معاف رکھیں اور بجائے میرے کسی دوسرے شخص کو کوفہ کی طرف بھیجیں‘ لیکن سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ان کو خط لکھا کہ تم بزدلی کا اظہار نہ کرو‘ اور تم ہی کوفہ میں جائو‘ چنانچہ مسلم بن عقیل روانہ ہوئے‘ اور کوفہ میں پہنچ کر مختار بن ابی عبید کے مکان پر اترے‘ اسی وقت یہ خبر شیعان علی رضی اللہ عنہ میں پہنچ گئی‘ لوگ جوق در جوق آ آ کر بیعت ہونا شروع ہوئے‘ پہلے ہی دن ۱۲ ہزار آدمیوں نے بیعت کی۔ مسلم نے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نام اپنے بخیریت پہنچنے اور لوگوں کے بیعت کرنے کا حال لکھا‘ اور ان کو اطلاع دی کہ پہلے ہی دن بارہ ہزار آدمی بیعت میں داخل ہوئے جن میں سلطان بن صرد‘ مسیب بن ناجیہ‘ رقاطہ بن شداد‘ ہانی بن مروہ بھی شامل ہیں‘ آپ جب آئیں گے اور علانیہ بیعت لینا شروع کریں گے‘ تو لاکھوں آدمی بیعت میں داخل ہو جائیں گے‘ یہ خط سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے پاس قیس و عبدالرحمن دو شخص لے کر روانہ ہوئے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس خط کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے‘ اور دونوں نامہ بروں کو فوراً واپس کر دیا‘ اور کہلا بھجوایا کہ میں بہت جلد کوفہ پہنچنا چاہتا ہوں۔ اب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کر کے کہ بصرہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے گروہ کی کافی تعداد موجود ہے اپنے ایک معتمد کو احنف بن مالک اور دوسرے شرفاء بصرہ کے نام خطوط دے کر بصرہ کی جانب روانہ کر دیا‘ ان خطوط میں لکھا تھا‘ کہ آپ لوگوں کو میرے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیئے اور فوراً کوفہ پہنچ جانا چاہیئے۔ کوفہ میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پہنچنے اور لوگوں کے بیعت کرنے کا حال جب عام طور پر مشہور ہو گیا تو عبداللہ بن مسلم الحضرمی نعمان بن بشیر کے پاس آیا اور کہا کہ اے امیر‘ خلیفہ وقت کے کام میں ایسی سستی نہیں کرنی چاہیئے‘ آج کئی روز ہوئے مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر لوگوں سے حسین بن علی رضی اللہ عنھما کی خلافت کے لیے بیعت لے رہے ہیں‘ آپ کو چاہیئے کہ مسلم کو قتل کر دیں یا گرفتار کر کے یزید کے پاس بھیج دیں اور جن لوگوں نے بیعت کی ہے‘ ان کو بھی قرار واقعی سزا دیں‘ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ لوگ جس کام کو مجھ سے چھپا کر کر رہے ہیں‘ میں اس کو آشکارا کرنامناسب نہیں سمجھتا‘ جب تک یہ لوگ مقابلہ کے لیے نہ نکلیں گے میں ان پر حملہ نہ کروں گا‘ عبداللہ یہ سن کر باہر آیا اور اسی وقت یزید کو ایک خط لکھا: ’’مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں آکر حسین بن علی رضی اللہ عنھما کی خلافت کے لیے بیعت لے رہے ہیں اور لوگ ان کے ہاتھ پر کثرت سے بیعت کر رہے ہیں‘ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے بھی آنے کی خبر ہے‘ نعمان اس معاملہ میں بڑی کمزوری دکھا رہے ہیں‘ آپ اگر ولایت کوفہ کو اپنے قبضے میں رکھناچاہتے ہیں‘ تو کسی زبردست گورنر کو فوراً کوفہ میں بھیجیں‘ تاکہ وہ آکر مسلم کو گرفتار کرے اور لوگوں سے بیعت فسخ کرائے‘ اور حسین بن علی رضی اللہ عنھما کو کوفہ میں داخل ہونے سے روکے‘ اس کام میں اگر دیر ہوئی تو آپ کوفہ کو اپنے قبضے سے نکلا ہوا سمجھیں‘‘۔ اسی مضمون کے خطوط عمارہ بن عتبہ‘ اور ابن ابی معیط نے بھی یزید کے نام روانہ کئے‘ ان خطوط کو پڑھ کر یزید بہت فکر مند اور پریشان ہوا‘ سرجون نامی سیدنا امیر