تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کار مقرر کر دئیے اور خزانہ مصر کا ایک حصہ خلیفہ کے لیے مخصوص کر دیا جس میں اس کو تصرف کا اختیار حاصل رہا‘ اس طرح ساڑھے تین سال بعد مستعصم باللہ ابو القاسم احمد ۲ محرم ۶۶۰ھ کو جب کہ الملک الظاہر سے فوج لے کر تاتاریوں سے لڑنے کو ملک شام میں آیا ہوا تھا‘ ایک لڑائی میں گم یا مقتول ہو گیا‘ خلیفہ کے مفقود الخبر ہونے کے بعد ایک سال تک پھر زمانہ فترت گذرا اور الملک الظاہر نے ایک اور عباسی شہزادے کا پتہ لگا کر بلوایا اور اس کو خلیفہ بنایا‘ اس شہزادے کا نام ابو العباس احمد بن حسن بن علی بن ابی بکر بن خلیفہ مستر شد باللہ بن مستظہر باللہ تھا‘ اس کے پر دادا تک کوئی خلیفہ نہ ہوا تھا اس طرح خلیفہ مستر شد باللہ کی اولاد میں پھر خلافت عباسیہ شروع ہوئی اس خلفیہ کا لقب حاکم بامر اللہ تجویز ہوا اور ۸ محرم ۶۶۱ھ کو وہ تخت نشین ہوا‘ ۶۷۴ھ میں الملک الظاہر نے ملک شوڈان کو فتح کیا جو نہایت عظیم الشان فتح سمجھی جاتی ہے‘ محرم ۶۷۶ھ میں الملک الظاہر فوت ہوا‘ الملک السعید تخت نشین ہوا‘ ۶۷۸ھ میں الملک المنصور مصر کا سلطان مقرر ہوا‘ ۶۸۰ھ میں الملک المنصور نے تاتاریوں کو شام میں پہنچ کر شکست فاش دے کر بھگا دیا‘ ۶۸۹ھ میں الملک المنصور فوت اور الملک الاشرف تخت نشین ہوا‘ ۱۸ جمادی الاول ۷۰۱ھ کو خلیفہ الحاکم بامر اللہ چالیس سال ۵ مہینے دس دن کی خلافت کے بعد فوت ہو کر قاہرہ میں مدفون ہوا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا ابو الربیع مستکفی باللہ خلیفہ بنایا گیا‘ خلاصہ یہ کہ مصر میں ۹۲۲ھ تک مملوکوں کی خود مختار سلطنت قائم رہی ۷۸۴ھ تک سرکیشی مملوک جو مملوک بحریہ کہلاتے تھے حکمران ہوتے رہے اس کے بعد مملوکوں کی ایک دوسری قوم جو چرکسی مملوک کہلاتے تھے بادشاہ ہونے لگے بحریہ مملوکوں کا آخری سلطان الملک صالح رمضان ۷۸۴ھ میں معزول ہوا اور برقوق چرکس الملک الظاہر کے لقب سے تخت نشین ہوا‘ اس کے بعد ۹۲۲ھ تک یکے بعد دیگرے چرکسی (گرجی) مملوک مصر کے بادشاہ ہوتے رہے گرجی پاچرکسی مملوکوں کے آخری سلطان طومان بے کو سلطان سلنیم عثمانی کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور مصر کا ملک سلطنت عثمانیہ کو مقبوضات میں شامل ہوا‘ مملوکوں کی حکومت کے ابتدائی زمانہ میں خلفاء عباسیہ کا دوسرا سلسلہ مصر میں شروع ہو گیا تھا جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے‘ یہ سلسلہ مملوکوں کی حکومت کے ساتھ ہی ۹۲۲ھ میں ختم ہوا‘ مصر میں خلفائے عباسیہ کی حالت اسی قسم کی تھی جیسے آج کل پیروں کی گدیاں نظر آتی ہیں‘ نام کے لیے تو یہ خلیفہ کہلاتے اور اپنے ولی عہد بھی مقرر کرتے تھے‘ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے مسلمان بادشاہ ان سے سند حکومت اور خطاب بھی حاصل کرتے تھے‘ مصر کے مملوک سلاطین بھی اپنے آپ کو ان خلفاء کا نائب السلطنت ہی کہتے تھے اور بظاہر تعظیم و تکریم کا برتائو کرتے اور خطبوں میں ان کا نام لیتے مگر حقیقتاً ان کو کوئی قوت و شوکت حاصل نہ تھی‘ ان کی تنخواہ مقرر تھی‘ سلاطین مصران کو نہ آزادانہ کہیں آنے جانے کی اجازت دیتے تھے نہ کسی شخص کو ان سے ملنے کی اجازت تھی یہ خلفاء اپنے اراکین خاندان کے ساتھ گویا اپنے محدود قصر میں نظر بند رہتے تھے‘ ان کی حیثیت ایک سیاسی شاہی قیدی کی تھی ان کو خلیفہ کہا جاتا لیکن خلافت اسلامیہ کا مفہوم ان سے اسی قدر بعد رکھتا تھا جس قدر زمین سے آسمان تک کا فاصلہ ہے‘ سلطان سلیم عثمانی نے مصر پر قبضہ کرنے کے بعد مصر کے عباسی خلیفہ محمد نامی پر بھی قبضہ کیا جو خلفائے مصر کے سلسلہ میں اٹھارواں اور آخری خلیفہ تھا‘ اس خلیفہ کے پاس جو علم اور جبہ بطور نشان خلافت موجود تھا وہ سلطان سلیم