تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سکتا تھا‘ مسلمان آپس میں بھی لڑتے تھے مگر ان لڑائیوں اور چڑھائیوں کے باوجود عرب و شام و مصر و عراق وغیرہ اسلامی ممالک میں باشندوں کی عام زندگی اور قیام امن کسی پیچیدہ نظام سلطنت کی خواہاں نہ تھی‘ خلیفہ اہم امور میں مشورے لیتا تھا مگر مشورے لینے کے لیے مجبور بھی نہ تھا‘ خلیفہ کو بلا طلب بھی مشورے دئیے جاتے تھے اور بسا اوقات اس کو وہ منظور بھی کرنے پڑتے تھے‘ حکومت میں عام طور پر عربی سادگی موجود تھی‘ معمولی بدوی خلیفہ تک پہنچ سکتے تھے‘ اور ان بادیہ نشینوں کی طلاقت لسانی کو خلیفہ کا رعب حکومت مطلق کم نہیں کر سکتا تھا۔ خلیفہ صوبوں اور ولایتوں کی حکومت پر اپنے نائب مقرر کر کے بھیجتا تھا اور ان کو اس صوبہ یا ولایت میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے‘ خلیفہ جس طرح تمام عالم اسلام کا فرماں روا تھا اسی طرح وہ تمام عالم اسلام کا سپہ سالار اعظم بھی ہوتا تھا اسی طرح صوبوں اور ولایتوں کے عامل اپنے صوبے کے بادشاہ بھی ہوتے تھے اور سپہ سالار بھی‘ وہی مذہبی پیشوا اور نمازوں کے امام ہوتے تھے اور وہی قاضی القضاۃ بھی‘ خلیفہ کو بھی جب کسی مذہبی مسئلہ کی نسبت شک ہوتا تھا تو علماء اور فقہاء سے دریافت کرنے میں مطلق عاری نہ ہوتا تھا‘ اسی طرح عاملوں اور والیوں کو بھی علماء اور فقہاء سے استمزاج کرنا پڑتا تھا‘ بعض اوقات صوبوں میں ایک عامل یعنی گورنر مقرر ہوتا تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسرا قاضی یا چیف جج دربار خلافت سے مقرر ہوتا تھا۔ عامل کا کام ملک میں انتظام قائم رکھنا‘ فوج کشی کرنا‘ دشمن کی مدافعت کے لیے آمادہ رہنا‘ رعایا کی حفاظت کرنا اور محاصل ملکی وصول کر کے خزانہ میں جمع کرنا ہوتا تھا‘ اور قاضی کا کام حدود شرعیہ کو جاری کرنا‘ انفصال خصومات کی خدمت انجام دینا اور احکام شرعی کی پابندی کرانا ہوتا تھا‘ قاضی عامل کا محکوم نہ ہوتا تھا جس کے متعلق تمام مالی انتظام ہوتا تھا‘ اس حالت میں عامل صرف سپہ سالار افواج ہوتا تھا۔ غرض خلافت بنو امیہ میں سادگی زیادہ تھی‘ شرعی قوانین سے تمام دقتوں کو دفع کر دیا جاتا تھا اور رعایا عدل و انصاف کی وجہ سے بہت خوش حال اور فارغ البال تھی‘ نہ رعایا سے کوئی نامناسب ٹیکس یا محصول لیا جاتا تھا نہ سلطنت کو انتظام ملک کے لیے زیادہ روپیہ خرچ کرنا پڑتا تھا‘ خلیفہ تمام اسلامی دینا کا روحانی پیشوا بھی سمجھا جاتا تھا اور دیناوی بادشاہ بھی‘ اس لیے ملک میں امن و امان کے قائم رکھنے میں بڑی آسانی ہوتی تھی‘ کوئی باقاعدہ وزارت کا عہدہ نہ تھا اور ضرورت کے وقت ہر شخص وزارت کے کام انجام دے سکتا تھا۔ خلافت عباسیہ میں عربوں کے سوا ایرانیوں اور ترکوں کو بھی فاتح قوم کے حقوق ملنے لگے اور بتدریج مفتوح قوم کا اقتدار عرب فاتحین سے بھی بڑھ گیا‘ اس لیے انتظام ملکی میں پیچیدگی واقع ہوئی‘ اگر عرب‘ ایرانی اور ترک سب کو احکام اسلام کے موافق مساوی درجہ میں رکھا جاتا اور حقیقی مساوات قائم ہوتی تو بنو امیہ کے زمانے سے بھی زیادہ سادگی اور خوبی انتظام سلطنت میں نمایاں ہوتی‘ مگر بد قسمتی سے ایسی صورتیں پیش آتی رہیں کہ ان قوموں میں مخالفت اور رقابت ترقی کرتی رہی‘ جس کا بڑا سبب یہ تھا کہ ایرانیوں کو عربوں پر فضیلت دی گئی اور ایرانی و ساسانی معاشرت کو دربار خلافت نے اختیار کر کے عربی راحت رساں سادگی کو حقارت کے ساتھ رد کر دیا‘ اور اسی کا یہ نتیجہ ہوا کہ خلافت اسلامیہ کو ایسی پیچیدگیوں میں مبتلا ہونا پڑا جس سے اس کا اعتبار و اقتدار بتدریج کم ہوتے ہوتے فنا ہو گیا‘ بہر حال خلافت عباسیہ کے قابل تذکرہ عہدوں کی