تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رضی اللہ عنہ کی غلطی ان سے بھی بڑی ہے‘ کیوں کہ اس غلطی کا خیال اوراس پر عامل ہونے کی جرأت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ہی کی تحریک کا نتیجہ تھا‘ اس لیے سیدنا حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ مغیرہ بن شعبہ نے مسلمانوں میں ایک ایسی رسم جاری ہونے کا موقع پیدا کر دیا جس سے مشورہ جاتا رہا‘ اور باپ کے بعد بیٹا بادشاہ ہونے لگا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد اہل شام نے تو بلا تامل بطیب خاطر یزید کے ہاتھ پر بیعت کر لی‘ دوسرے صوبوں کے لوگوں نے بھی عمال کے ذریعہ بیعت کی اور رعب سلطنت کے مقابلہ میں جرأت انکار نہ کر سکے‘ یزید نے تخت حکومت پر بیٹھتے ہی صوبوں اور ولایتوں کے عاملوں کو لکھا‘ کہ لوگوں سے میرے نام پر بیعت لے لو‘ اس زمانہ میں مدینہ کے والی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان اور کوفہ کے والی نعمان بن بشیر تھے‘ یہ دونوں عامل نیک طینیت اور صلح جو انسان تھے‘ ان دونوں کے مزاج میں سختی و درشتی دوسرے عالموں کے مقابلہ میں بالکل نہ تھی۔ جب یزید کا حکم مدینہ میں ولید بن عتبہ کے پاس پہنچا تو ولید نے اکابر مدینہ کو جمع کر کے یزید کا خط سنایا‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا حال سن کر اظہار افسوس کیا‘ ان کے لیے دعا مغفرت کی اور ولید سے کہا کہ ابھی میری بیعت کے لیے جلدی نہ کیجئے‘ میں سوچ کر فیصلہ کروں گا‘ مروان بن حکم جو پہلے مدینہ کا عامل اور اب ولید بن عتبہ کی ماتحتی میں بطور مشیر موجود تھا اس نے ولید کو ترغیب دی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے اسی وقت بیعت لے لی جائے اور ان کو جانے نہ دیا جائے‘ لیکن ولید نے مروان کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور ان کی بیعت کو اگلے دن پرملتوی رکھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ولید کے پاس نہیں آتے تھے‘ ان کو بلوایا گیا‘ انہوں نے آنے سے انکار کر دیا اور ایک شب کی مہلت طلب کی‘ ان کو بھی ولید نے مہلت دے دی‘ رات کو موقع پا کر عبداللہ بن زبیر معہ اہل و عیال مدینہ سے نکل گئے اور مدینہ کے معروف راستہ کو چھوڑ کر کسی غیر معروف راستے سے روانہ ہوئے ‘ اگلے دن ان کی گرفتاری کے لیے مروان اور ولید تیس آدمیوں کا ایک دستہ لے کر نکلے‘ مگر کہیں سراغ نہ ملا‘ شام کو واپس آگئے۔ یہ تمام دن چوں کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے تجسس میں گذرا‘ لہٰذا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی طرف توجہ نہ ہو سکی‘ اس دوسری شب میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھی موقع پا کر مدینہ سے مع اہل و عیال روانہ ہو گئے‘ صبح کو ان کی روانگی کا حال معلوم ہوا تو ولید نے کہا کہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تعاقب نہ کروں گا‘ ممکن ہے کہ وہ مقابلہ کریں اور مجھ کو ان کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑیں‘ جو مجھ کو کسی طرح گوارا نہیں۔ ولید بن عتبہ نے ان دونوں صاحبوں کی روانگی کے بعد اہل مدینہ سے خلافت یزید کی بیعت لی‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی خطرہ ہی نہیں تھا‘ کیوں کہ انہوں نے کبھی خلافت کی خواہش ہی نہیں کی‘ ادھر یزید نے بھی لکھ دیا تھا کہ اگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیعت نہ کریں تو ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے‘ لہٰذا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بیعت کے لیے کسی نے کچھ نہ کہا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ چند روز کے بعد مکہ کی طرف چلے گئے تھے۔مکہ