تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کوئی افسر پولس ہوتا تھا‘ کوئی افسر مال‘ غرض ان کے سوا باقی لوگوں کو ان سے کم درجے کے عہدے اور اختیارات ملتے تھے‘ ان کا مرتبہ سب پر فائق ہوتا تھا‘ مملوک فوج کے کچھ آدمی فوت ہو جاتے یا لڑائی میں مارے جاتے تو فوراً سرکاری خزانہ سے اسی قدر سر کیسی غلام خرید کر تعداد کو پورا کر دیا جاتا تھا‘ اس نظام پر چراکسمہ یعنی مملوکوں کے طبقہ دوم نے زیادہ عمل در آمد کیا‘ ہندوستان میں بھی غلاموں کا خاندان حکمران رہا ہے مگر اس میں دو تین بادشاہوں کے سوا باقی سب بادشاہ شمس الدین التمش کی اولاد سے تھے اور اس میں وہی وراثت حکومت کی لعنت موجود تھی‘ لیکن مصر کے تخت پر متمکن ہونے والے مملوک اکثر زر خرید غلام ہی ہوتے تھے‘ اور اپنی ذاتی قابلیت کے سبب تخت حکومت تک پہنچتے تھے‘ مورخین نے اس طرف توجہ نہیں فرمائی اور دولت مملوکیہ مصر کی اس خصوصیت کو نمایاں اور واضح تر الفاظ میں بیان نہیں کیا‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ دولت مملوکیہ مصر میں گو بعض باتیں قابل اصلاح ضرور تھیں مگر یہ بات بے حد قابل تعریف تھی کہ بادشاہ کے انتخاب کا اکثر آزاد موقعہ لوگوں کو مل جاتا تھا اس سلطنت کے حالات ایک جداگانہ باب میں ان شاء اللہ بالتفصیل بیان ہوں گے‘ اس وقت صرف اس قدر بیان کرنا ضروری ہے کہ الملک المظفر نے جب یہ سنا کہ مغل یعنی تاتاری افواج نے بغداد و عراق اور خراسان و فارس و آذربائیجان و جزیرہ و موصل وغیرہ کو برباد و پامال کرنے کے بعد اپنی پوری طاقت سے شام کے علاقے کو برباد اور خاک سیاہ بنانا شروع کر دیا ہے تو وہ اپنا مملوک لشکر اور مصری افواج لے کر مصر سے شام کی طرف متوجہ ہوا اور ۱۵ رمضان المبارک ۶۵۵ھ بروز جمعہ نہر جالوت پر مملوک فوج نے جس کا سپہ سالار رکن الدین بیبرس تھا مغلوں یعنی تاتاریوں کے لشکر عظیم کو ایسی شکست فاش دی کہ آج تک مغلوں کو ایسی ذلت آفریں شکست کھانے کا موقعہ نہ ملا تھا‘ ہزارہا مغل میدان جنگ میں کھیت رہے اور باقی مملوکیوں کے ۱۶ ذیقعدہ ۶۵۸ھ کو الملک المظفر کے مقتول ہونے پر رکن الدین بیبرس تخت نشین ہوا اور اپنا لقب الملک الظاہر تجویز کیا الملک الظاہر کو تخت نشین ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ خاندان عباسیہ کے سینیتسویں آخری خلیفہ مستعصم باللہ کا چچا ابو القاسم احمد جو بغداد میں عرصہ سے قید تھا بغداد کی بربادی اور مستعصم کے قتل ہونے کے وقت کسی طرح قید خانہ سے نکل کر اور چھپ کر بھاگ نکلا تھا اور وہ ملک شام کے کسی مقام میں روپوش اور موجود ہے‘ چنانچہ الملک الظاہر نے دس معزز عربوں کا ایک وفد مصر سے ابو القاسم احمد بن ظاہر بامر اللہ عباسی کی تلاش میں روانہ کیا‘ یہ لوگ ابو القاسم احمد کو ہمراہ لے کر مصر پہنچے الملک الظاہر ابو القاسم کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر مصر کے تمام علماء و اراکین کو لے کر استقبال کے لیے اپنے دارالسلطنت قاہرہ سے نکلا اور نہایت عزت و احترام سے شہر میں لا کر اس کے ہاتھ پر بتاریخ ۱۳ رجب ۶۵۹ھ بیعت خلافت کی اور المستنصر باللہ کا لقب تجویز کیا اس کے نام خطبہ پڑھوایا سکوں پر خلیفہ کا نام مسکوک کرایا جمعہ کے دن خلیفہ کے جلوس کے ساتھ جامع مسجد میں آیا بنی عباس کا شرف خطبہ بیان کیا اور خلیفہ کے واسطے دعا کی‘ بعد نماز خلیفہ نے سلطان ظاہر کو خلعت عطا کیا‘ ۴ شعبان ۶۵۹ھ بروز دو شنبہ قاہرہ سے باہر خیمے نصب ہوئے‘ خلیفہ نے دربار کیا اور اپنی طرف سے الملک الظاہر کو نائب السلطنت قرار دے کر سلطنت مصر کے سیاہ و سفید کا اختیار دیا‘ یعنی اس مضمون کا ایک فرمان لکھ کر لوگوں کو سنایا الملک الظاہر نے خلیفہ کے لیے واسطے خدمت گار‘ خزانچی‘ آب دار اور ضروری اہل