تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے سامنے پیش کیے گئے‘ اس نے کہا کہ یہ چیزیں تو تم نہ بھی دیتے جب بھی ہماری ہی تھیں یہ کہہ کر اپنے درباریوں میں سب کو تقسیم کر دیا اور کہا کہ ان خزانوں کا پتہ بتائو جن کا حال کسی کو معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں مدفون ہیں خلیفہ نے فوراً ان خزانوں کا پتہ بتایا‘ زمین کو کھود کر دیکھا گیا تو جواہرات اور اشرفیوں کی تھیلیوں سے بھرے ہوئے حوض نکلے‘ ہلاکو خان کی فوج کے ہاتھ سے بغداد اور مضافات بغداد میں ایک کروڑ چھ لاکھ مسلمان مقتول ہوئے اور یہ تمام زہرہ گداز نظارے خلیفہ مستعصم کو دیکھنے پڑے ہلاکو خان نے خلیفہ کو بے آب و دانہ نظر بند رکھا‘ خلیفہ کو بھوک لکی اور کھانا مانگا تو ہلاکو خان نے حکم دیا کہ ایک طشت جواہرات کا بھر کر سامنے لے جائو اور کہو کہ اسے کھائو‘ خلیفہ نے کہا میں ان کو کیسے کھا سکتا ہوں‘ ہلاکو خان نے کہلا بھیجا کہ تم جس چیز کو کھا نہیں سکتے اس کو اپنی اور لاکھوں مسلمانوں کی جان بچانے کے لیے کیوں نہ خرچ کیا اور سپاہیوں کو کیوں نہ دیا کہ وہ تمہاری طرف سے لڑتے اور تمہار اموروثی ملک بچاتے اور ہماری دست برد سے محفوظ رکھتے‘ اس کے بعد ہلاکو خان نے مستعصم کے قتل کرنے کا مشورہ اپنے اراکین سے کیا‘ سب نے قتل کرنے کی رائے دی‘ مگر نصیر الدین طوسی و علقمی نے یہ ستم ظریفی کی کہ ہلاکو خان سے عرض کیا کہ مستعصم مسلمانوں کا خلیفہ ہے اس کے خون سے تلوار کو آلودہ نہیں ہونا چاہیئے بلکہ نمدے میں لپیٹ کر لاتوں سے کچلوانا چاہیئے‘ چنانچہ یہ کام ابن علقمی کے سپرد ہوا اور اس نے اپنے آقا مستعصم باللہ کو نمدے میں لپیٹ کر اور ایک ستون سے باندھ کر اس قدر لاتیں لگوائیں کہ خلیفہ کا دم نکل گیا پھر اس کی لاش کو زمین میں ڈال کر مغل سپاہیوں کے پائوں سے کچلوا کر پارہ پارہ اور ریزہ ریزہ کرا دیا اور خود دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہا کہ میں علویوں کے خون کا بدلہ لے رہا ہوں‘ غرض خلیفہ کی لاش کو گور و کفن بھی نصیب نہ ہوا‘ اور خاندان عباسیہ کا کوئی شخص بھی جو مغلوں کے قبضہ میں آیا زندہ نہ بچ سکا۔ اس کے بعد ہلاکو خان نے شاہی کتب خانہ کی طرف توجہ کی جس میں بے شمار کتابوں کا ذخیرہ تھا یہ تمام کتابیں دریائے دجلہ میں پھینک دی گئیں جس سے دجلہ میں ایک بند سا بندھ گیا اور بتدریج پانی سب کو بہا کر لے گیا‘ دجلہ کا پانی جو اس سے پہلے مقتولین کے خون سے سرخ ہو رہا تھا اب ان کتابوں کی سیاہی سے سیاہ ہو گیا اور عرصہ تک سیاہ رہا‘ تمام شاہی محلات لوٹ لینے کے بعد مسمار کر دیئے گئے‘ غرض یہ ایسی عظیم الشان خون ریزی اور بربادی تھی جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں مل سکتی‘ اسلام پر یہ ایسی مصیبت آئی تھی کہ لوگوں نے اس کو قیامت صغریٰ کے نام سے تعبیر کیا ہے‘ ۱؎ابن علقمی نے جو اس تمام بربادی و خون ریزی کا باعث ہوا تھا‘ اب کوشش کی کہ ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہوا ہے تو ابن علقمی کو بہتری کی توقع دلا دی گئی تھی اور اس کو یقین تھا کہ ہلاکو خان کسی ہاشمی علوی کو خلیفہ بنا کر مجھ کو اس کا نائب السلطنت بنا دے گا لیکن ہلاکو خان نے عراق میں اپنے حاکم مقرر کر دئیے‘ یہ دیکھ کر ابن علقمی بہت پریشان ہوا بڑی بڑی چالیں چلا اور اپنے مقصد کے حاصل کرنے کے لیے ہلاکو خان کی خدمت میں گڑگڑایا اور خوشمدانہ التجائیں کیں مگر ہلاکو خان نے اس کو اس طرح دھتکار دیا جیسے کتے کو دھتکار دیتے ہیں‘ چند روز تک ابن علقمی ادنیٰ غلاموں کی طرح تاتاریوں کے ساتھ ساتھ ان کی جوتیاں سیدھی کرتا پھرا‘ آخر اسی ناکامی کے صدمہ بہت جلد مر گیا‘ خلیفہ مستعصم باللہ خلفاء عباسیہ کا آخری خلیفہ تھا جس نے