تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھا مگر مجاہدین نے اپنی ناتجربہ کاری سے تعاقب کرنے پر اصرار کیا‘ فتح الدین نے مجبوراً مغلوں کا تعاقب کیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ مغلوں نے لوٹ کر مقابلہ کیا‘ پیچھے سے وہ مغل جو کمین گاہ میں چھپ گئے تھے حملہ آور ہوئے‘ لشکر بغداد بچ میں گھر کر حواس باختہ ہو گیا‘ فتح الدین میدان جنگ میں مارا گیا اور مجاہدین نے بھاگ کر بغداد میں دم لیا‘ مجاہدین ہی کی بدتدبیری سے لشکر بغداد کی فتح شکست سے تبدیل ہو گئی‘ مگر خلیفہ مستعصم نے اپنی فطری حماقت سے اس بھگوڑے سردار کو دیکھ کر تین مرتبہ کہا الحمدللہ علی سلامۃ مجاھد الدین‘ گو لشکر بغداد کو شکست ہوئی مگر ہلاکو خاں کا مقدمتہ الجیش بھی پریشان و مجروح ہو چکا تھا اس لیے خلیفہ مستعصم مطمئن تھا کہ رسیدہ بود بلائے دے بخیر گذشت‘ مگر ابن علقمی جس نے خلیفہ کو اب تک بالکل بے خبر رکھا تھا اپنے دل میں خلیفہ کی حماقت پر ہنس رہا تھا کہ اتنے میں یکایک خبر مشہور ہوئی کہ ہلاکو خاں نے افواج کثیر کے ساتھ بغداد کا محاصرہ کر لیا ہے‘ اہل شہر نے مدافعت کی کوشش کی اور پچاس روز تک تاتاریوں کو شہر میں نہیں گھسنے دیا‘ شہر کے شیعوں نے ہلاکو خاں کے لشکر میں جا جا کر امن حاصل کیا اور شہر کے حالات سے مطلع کیا‘ وزیر ابن علقمی شہر کے اندر ہی رہا اور برابر ہلاکو خاں کے پاس دم بدم کی خبریں بھیجتا رہا‘ چونکہ وزیر کو اہل شہر سے ہمدردی نہ تھی‘ لہٰذا اہل شہر دم بدم کمزور و پریشان ہوتے گئے‘ آخر وزیر ابن علقمی اول شہر سے نکل کر ہلاکو خان سے ملا اور صرف اپنے لیے امن طلب کر کے واپس آیا اور خلیفہ سے کہا کہ میں نے آپ کے لیے بھی امن حاصل کر لی ہے‘ آپ ہلاکو خان کے پاس چلیں وہ آپ کو ملک عراق پر اسی طرح قابض و متصرف رکھے گا جیسا کہ غیاث الدین‘ کیخسرو کو تاتاریوں نے اس کے ملک پر حاکم و فرمان روا رکھا ہے‘ خلیفہ معہ اپنے بیٹے کے شہر سے نکل کر ہلاکو خان کے لشکر میں پہنچا‘ ہلاکو خان نے خلیفہ کو دیکھ کر کہا کہ اپنے اراکین سلطنت اور شہر کے علماء و فقہا کو بھی آپ بلوائیں‘ خلیفہ کو ہلاکو خان نے اپنے لشکر میں روکے رکھا‘ خلیفہ کا حکم سن کر علماء و فقہا اور اراکین سلطنت شہر سے نکل کر لشکر تاتار میں آئے‘ ان سب کو ایک ایک کر کے قتل کر دیا گیا‘ اس کے بعد ہلاکو نے خلیفہ سے کہا کہ تم شہر میں پیغام بھیج دو کہ اہل شہر ہتھیار رکھ کر سب خالی ہاتھ شہر سے باہر آ جائیں‘ مستعصم نے یہ پیغام بھی شہر میں بھیج دیا‘ اہل شہر باہر نکلے اور تاتاریوں نے ان کو قتل کرنا شروع کیا‘ شہر کے تمام سوار و پیادے اور شرفا کھیرے ککڑی کی طرح کئی لاکھ کی تعداد میں مقتول ہوئے‘ شہر کی خندق ان لاشوں سے ہمدار ہو گئی پھر دریائے دجلہ میں ان مقتولوں کے خون کی کثرت سے پانی سرخ ہو گیا‘ تاتاری لوگ شہر میں گھس پڑے عورتیں اور بچے اپنے سروں پر قرآن شریف رکھ رکھ کر گھروں سے نکلے مگر تاتاریوں کی تلوار سے کوئی بھی نہ بچ سکا‘ ہلاکو خان نے اپنے لشکر کو قتل عام کا حکم دیا تھا بغداد اور اس کے مضافات میں تاتاریوں نے چن چن کر لوگوں کو قتل کیا‘ بغداد میں صرف چند شخص جو کنویں یا اسی قسم کی کسی پوشیدہ جگہ میں چھپے ہوئے وہ گئے بچ گئے باقی کوئی متنفس زندہ نہیں چھوڑا گیا‘ اگلے دن بروز جمعہ ۹ صفر ۶۵۶ھ کو ہلاکو خان خلیفہ مستعصم کو ہمراہ لیے ہوئے بغداد میں داخل ہوا‘ قصر خلافت میں داخل ہو کر اجلاس کیا‘ خلیفہ کو سامنے بلوایا اور کہا کہ ہم تمہارے مہمان ہیں‘ ہمارے لیے کچھ حاضر کرو‘ خلیفہ پر اس قدر دہشت طاری تھی کہ وہ کنجیوں کو پہچان نہ سکا آخر خزانے کے تالے توڑے گئے‘ دو ہزار نہایت نفیس پوشاکیں ہزار دینار اور سونے کے زیورات ہلاکو