تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وہاں کے عامل کو بے دخل کر کے میلہ پر قابض و متصرف ہو گیا‘ یہ سن کر ابراہیم بن احمد اغلب نے اپنے بیٹے احول کو ایک لشکر کے ساتھ اس طرف روانہ کیا‘ ابو عبداللہ شہر میلہ سے شکست کھا کر کتامہ کی جانب فرار ہوا اور کوہ انکجان میں جا کر دم لیا‘ احول وہاں سے قیروان کو لوٹ گیا۔ اسی عرصہ میں ابراہیم بن احمد بادشاہ افریقہ نے وفات پائی اس کا بیٹا ابو العباس تخت نشین ہوا۔ ابو عبداللہ نے انکجان میں ایک شہر آباد کیا جس کا نام دار الہجرۃ رکھا‘ احول اس کی سرکوبی کے لیے انکجان کی طرف آیا‘ ادھر ابو العباس کا انتقال ہو گیا اس کے بعد اس کا بیٹا زیادۃ اللہ تخت نشین ہوا۔ زیادۃ اللہ نے احول کو بلا کر کسی وجہ سے قتل کر دیا‘ ابو عبداللہ کو دم بدم طاقت حاصل ہوتی چلی گئی‘ اس نے اہل کتامہ کا ایک وفد عبیداللہ مہدی کے پاس علاقہ حمص کی طرف جہاں عبیداللہ مقیم تھا روانہ کیا اور اپنی کامیابی اور فتوحات سے اطلاع دے کر لکھا کہ اب آپ اس طرف تشریف لائیں۔ اس وفد کے آنے اور اس خبر کے لانے کا حال جاسوسوں کے ذریعہ خلیفہ مکتفی باللہ کو معلوم ہوا‘ اس نے فوراً عبیداللہ کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا اور مصر کے گورنر عیسیٰ نوشری کو بھی (اس زمانہ میں عیسیٰ نوشری بنی طولون کی بربادی کے بعد مصر کا گورنر تھا) لکھا کہ عبیداللہ کو جو مصر میں ہو کر گذرے گا گرفتار کر لو‘ خلیفہ مکتفی کے اس حکم کو بھی ابن خلدون نے عبیداللہ کے سید ہونے کی دلیل ٹھہرایا ہے‘ یعنی اگر عبیداللہ خاندان اہل بیت سے نہ ہوتا تو مکتفی اس کی گرفتاری کا حکم جاری نہ کرتا‘ حالانکہ یہ بہت ہی کمزور دلیل ہے‘ اس لیے کہ ہر ایک ہنگامہ پسند اور خواہان سلطنت شخص کو جو خفیہ طور پر کوششوں میں مصروف ہو گرفتار کرنا ہر ایک سلطنت کا فرض ہوتا ہے‘ چاہے اس کی سازش اور ریشہ دوانی کا مقام اس سلطنت کے حدود سے باہر ہی کیوں نہ ہو اور ظاہر ہے کہ شاہان افریقہ یعنی خاندان اغلب کے فرماں روا عباسیہ خلافت کی سیادت کو تسلیم کرتے اور خطبوں میں عباسی خلیفہ کا نام لیتے تھے‘ نیز یہ کہ افریقہ کی سرحد مصر سے ملی ہوئی تھی لہٰذا مکتفی یہ کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ افریقہ میں کوئی فتنہ برپا ہو۔ عبیداللہ حمص سے اپنے لڑکے اور متعلقین کو لے کر چلا‘ اس نے سوداگروں کی وضع اختیار کر رکھی تھی اور بھیس بدلے ہوئے سوداگروں کے قافلہ کے ساتھ تھا‘ وہ مصر میں گرفتار ہوا مگر پھر اس کو نوشری نے دھوکا کھا کر چھوڑ دیا‘ مصر سے گذر کر وہ افریقہ کی حدود میں داخل ہوا‘ یہاں بھی زیادۃ اللہ کے جاسوس اس کی فکر میں تھے مگر وہ سب سے بچتا بچاتا ریاست سلجماسہ میں پہنچا‘ وہاں کے حاکم نے اس کو پکڑ کر معہ اس کے لڑکے کے قید کر دیا۔ زیادۃ اللہ ۔۔ عیش و عشرت میں مصروف تھا‘ سلطنت کے کاموں کی طرف اس کو مطلق توجہ نہ تھی‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو عبداللہ شیعی کی طاقت دم بدم ترقی کرتی گئی اور اس کی کوئی روک تھام نہ کی گئی۔ جب زیادۃ اللہ نے دیکھا کہ ابو عبداللہ شیعی نے افریقہ کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ہے اور دم بدم ملک کو دباتا چلا آتا ہے تو اس نے ایک زبردست لشکر فراہم کر کے ابو عبداللہ کی سرکوبی کے لیے مامور کیا۔ ابو عبداللہ تاب مقاومت نہ لا کر ایک بلند پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا‘ چھ مہینے اس پہاڑ پر محصور رہا‘ ساتویں مہینے ایک کامیاب شب خون مار کر لشکر افریقہ کو بھگا دیا اور