تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پھر یکے بعد دیگرے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا‘ زیادۃ اللہ نے ایک دوسرے سردار کو پھر مقابلہ پر بھیجا‘ اس کو بھی شکست ہوئی‘ تب ۲۹۵ھ میں زیادۃ اللہ نے خاص اہتمام کے ساتھ فوجوں اور سپہ سالاروں کو ابو عبداللہ کی سرکوبی پر مامور کیا‘ مگر اب ابو عبداللہ کا رعب قائم ہو چکا تھا‘ سال بھر تک برابر لڑائیوں کا سلسلہ جاری رہا‘ کبھی ابو عبداللہ کو شکست ہوئی‘ کبھی لشکر افریقہ کو‘ اس عرصہ میں ابو عبداللہ کی جمیعت بڑھتی چلی گئی‘ اور لوگ آ آ کر اس کی فوج میں شامل ہوتے گئے زیادۃ اللہ کی فوج کم ہو رہی تھی‘ ایک کے بعد دوسرا شہر ابو عبداللہ کے قبضہ میں آتا گیا‘ یہاں تک کہ زیادۃ اللہ کے سرداران فوج بھی یکے بعد دیگرے ابو عبداللہ کے پاس آ آ کر حاضر ہونے لگے۔ عروہ بن یوسف اور حسن بن ابی خزیر نے حاضر ہو کر ملازمت حاصل کی۔ ماہ رجب ۲۹۶ھ میں ابو عبداللہ نے دارالسلطنت قیروان پر قبضہ کر کے زیادۃ اللہ کو بھگا دیا اور شاہی محلات میں اہل کتامہ کو قیام کا موقعہ دیا‘ پھر سلجماسہ پر چڑھائی کر کے وہاں کے حاکم السیع بن مدرار کو شکست دے کر گرفتار و قتل کیا اور عبیداللہ مہدی مذکور کو جیل خانہ سے نکال کر گھوڑے پر سوار کیا اور اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا کہ ھذا مولاکم لشکر گاہ میں آیا وہاں سے کوچ کر کے شہر رفادہ میں آیا‘ عبیداللہ کے ہاتھ پر ابو عبداللہ اور تمام لوگوں نے بیعت خلافت کی اور ’’المہدی امیر المومنین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا‘ یہ بیعت آخر عشرہ ماہ ربیع الثانی ۲۹۶ھ میں ہوئی اور اسی زور سے دولت عبیدیہ کی ابتداء ہوئی۔ مہدی عبیداللہ نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے داعیوں اور واعظوں کو تمام ملک میں پھیلا دیا‘ لوگوں نے اس کے مذہب کو قبول کرنے سے انکار کیا تو ان کے قتل کرنے کا حکم دیا اور اہل کتامہ کو بڑی بڑی جاگیریں اور مناصب عطا کیے جزیرہ‘ صقلیہ کی حکومت پر حسن بن احمد بن ابی خزیر کو مامور کر کے بھیجا جو ۱۰ ذی الحجہ ۲۹۶ھ کو اس جزیرہ میں پہنچا اور ظلم و تعدی سے جزیرہ کی تمام رعایا کا ناک میں دم کر دیا‘ اسی طرح تمام ملک افریقہ میں عامل و والی مقرر کر کے باقاعدہ حکومت شروع کر دی‘ ۲۹۹ھ میں اہل صقلیہ نے حسن بن احمد بن ابی خزیر کی شکایت عبیداللہ مہدی کو لکھ کر بھیجی اس نے اس کی جگہ علی بن عمر کو گورنر بنا کر بھیج دیا‘ اہل صقلیہ اس سے بھی ناخوش ہوئے اور اس کو معزول کر کے انہوں نے خود ہی احمد بن موہب کو اپنا امیر منتخب کر لیا‘ احمد بن موہب نے لوگوں کو مقتدر باللہ عباسی خلیفہ کی اطاعت پر آمادہ کیا اور مہدی کا نام خطبہ سے نکال کر مقتدر باللہ کا نام خطبہ میں داخل کر دیا اور ایک بیڑہ جنگی جہازوں کا مرتب کر کے ساحل افریقہ کی طرف روانہ کیا۔ عبیداللہ مہدی نے مقابلہ کے لیے ایک جنگی بیڑہ حسین بن علی بن خزیر کی ماتحتی میں مقابلہ پر روانہ کیا‘ دونوں بیڑوں میں بحری جنگ ہوئی‘ ابن خزیر مارا گیا اور عبیداللہ مہدی کے بیڑے کو اہل صقلیہ نے جلا کر ڈبو دیا۔ ان حالات کی خبر جب بغداد میں پہنچی تو خلیفہ مقتدر باللہ نے احمد بن موہب کے پاس سیاہ خلعت اور جھنڈے روانہ کئے اور اس طرح قریباً ایک سال کے لیے جزیرئہ صقلیہ میں عباسی خلیفہ کا خطبہ پڑھا گیا‘ عبیداللہ مہدی نے ایک زبردست جنگی بیڑہ تیار کر کے صقلیہ کی طرف روانہ کیا جس سے احمد بن موہب کی طاقت ٹوٹ گئی اور اہل صقلیہ نے اس کو گرفتار کر کے معہ اس کے ہمراہیوں کے عبیداللہ مہدی کے پاس بھیج کر خود عفو تقصیرات کی درخواست کی‘ عبیداللہ مہدی نے حکم دیا کہ احمد بن موہب اور اس کے