تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
وغیرہ شامل ہیں‘ علویہ میں سے مرتضیٰ ابن بطحاوی‘ ابن اززق نے بھی عبیداللہ مہدی کو دعویٰ نسب میں دروغ گو اور مفتری قرار دیا ہے۔ عبیداللہ مہدی غالی شیعہ تھا‘ مگر علمائے شیعہ نے بھی اس کے علوی ہونے سے انکار کیا ہے‘ مثلاً ابو عبداللہ ابن نعمان نے بھی عبیداللہ مہدی کو علویت کے دعوے میں کاذب قرار دیا ہے۔ امام المورخین سیدنا علامہ شیخ جلال الدین سیوطی نے بھی بڑے زور کے ساتھ عبیداللہ مہدی کو اپنے نسب کے دعویٰ میں جھوٹا اور مجوسی النسل ثابت کیا ہے۔ مگر علم تاریخ کے ایک اور بہت بڑے امام یعنی ابن خلدون نے عبید اللہ کو علوی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے‘ انہوں نے مقدمہ ابن خلدون میں بھی اور اپنی تاریخ میں بھی عبیداللہ کو نسب کے دعویٰ میں سچا تسلیم کیا ہے‘ لیکن ابن خلدون نے اس معاملہ میں جو دلائل پیش کیے ہیں وہ نہایت ہی کمزور اور اور امام ابن خلدون کے مرتبے کا تصور کرتے ہوئے تو بہت ہی مضحکہ انگیز معلوم ہوتے ہیں‘ مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ عبیداللہ کے خاندان میں ایک زبردست سلطنت قائم ہو گئی‘ اگر وہ علوی نہ ہوتا تو لوگ اس کی بادشاہت کو تسلیم نہ کرتے اور اس کے جھنڈے کے نیچے اپنے سر نہ کٹاتے۔ کسی کے نسب کی نسبت ثبوت پیش کرتے ہوئے اس قسم کی دلیل کا پیش کرنا یقینا ایک تمسخر انگیز چیز ہے اور حقیقت یہ ہے کہ امام ابن خلدون کے پاس اس معاملہ میں دلیل ایک بھی نہیں ہے‘ وہ چونکہ خود مغربی ہیں اس لیے ایک مغربی حکمران خاندان کے نسب کا مجہول ہونا ان کو بالطبع ناپسند ہے‘ اسی طرح وہ مراکش کی سلطنت ادریسیہ کو بھی علوی ہی ثابت کرنے میں پورا زور لگاتے ہیں اور ادریس ثانی کو ادریس اول کا بیٹا ثابت کرنے اور ایک بربری عورت کی عصمت و عفت کو بلا ضرورت زیر بحث لانے میں پورا زور صرف کرتے ہیں‘ کیونکہ وہ بھی ایک مغربی سلطنت تھی۔ ممکن ہے کہ یہ بد گمانی امام موصوف کی نسبت ایک معصیت ہو … استغفر اللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ۔ عبیداللہ مہدی نے حمص میں قیام کیا اور اپنے ایک آدمی ابو عبداللہ کو حج کے موقع پر مکہ معظمہ بھیجا۔ وہ مکہ معظمہ میں آیا‘ یہاں اس نے کتامہ کے حاجیوں کا قافلہ تلاش کر کے ان کے ساتھ خلا ملا پیدا کیا‘ انہوں نے اس کے زہد و ورع کو دیکھ کر خوب خدمت و تعظیم کی۔ حج سے فارغ ہو کر جب وہ لوگ افریقہ کی جانب روانہ ہوئے تو ابو عبداللہ بھی ان کے ساتھ ہی ہو لیا‘ انہوں نے بہت ہی غنیمت سمجھا‘ کتامہ میں جا کر انہوں نے اس کے قیام کے لیے کوہ انکجان پر ایک مکان بنا دیا جس کا نام فج الاخیار رکھا‘ وہاں ابو عبداللہ مصروف عبادت رہنے لگا اور لوگ اس کے پاس بڑی گرویدگی کے ساتھ آنے جانے لگے‘ ابو عبداللہ نے وہاں ظاہر کیا کہ مہدی عن قریب ظاہر ہونے والے ہیں اور انہوں نے ہم کو اسی مقام پر قیام کرنے کی ہدایت کی تھی اور یہ بھی فرمایا تھا کہ ہمارے انصار کا نام مشتق ہے کتمان سے‘ وہ اہل کتامہ ہی ہوں گے‘ رفتہ رفتہ ابو عبداللہ کی حکومت و سیادت کتامہ میں قائم ہو گئی۔ یہ خبر جب ابراہیم بن احمد بن اغلب والی افریقہ کے پاس دارالسلطنت قیروان میں پہنچی تو اس نے ولایت میلہ کے عامل کو لکھا کہ ابو عبداللہ جو کتامہ میں مقیم ہے اس کے حالات سے اطلاع دو‘ عامل نے لکھ کر بھیج دیا کہ وہ ایک تارک الدنیا شخص ہے‘ لوگوں کو نماز روزہ کی نصیحت کرتا رہتا ہے‘ ابراہیم یہ سن کر خاموش ہو گیا‘ چند ہی روز کے بعد ابو عبداللہ نے اپنی جمعیت کو مضبوط کر کے شہر میلہ پر حملہ کیا اور بعد محاصرہ